ایک لڑکا جو کہ دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، اس کے پاس اپنا کاروبار اور مال و دولت بھی ہے، اور وہ شادی کی عمر کو بھی پہنچ چکا ہے، لیکن تاحال شادی نہیں ہوئی۔
آیا وہ اپنا مال و دولت اپنے استعمال اور خیر کے امور میں خرچ کرسکتا ہے یا اسے اپنی شادی اور اس کے اخراجات، اسی طرح بیوی کے مہر اور نان و نفقہ کےلیے محفوظ کرکے رکھنا ضروری ہے؟ جب کہ یہ اندیشہ موجود ہے کہ اگر اس نے اپنا سارا مال کارِ خیر میں خرچ کرلیا تو آئندہ شادی کے معاملات متاثر ہوں گے، لہٰذا اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے عاقل بالغ انسان کو اپنی ملکیت میں ہر قسم کی جائز تصرفات کا حق دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے، نہ تو اس قدر تنگی درست ہے کہ انسان اپنی ذات پر اور خیر کے کاموں پر خرچ کرنے سے بالکل ہی ہاتھ روک لے، اور نہ ہی انجام و عاقبت سے بےخبر ہوکر اس قدر غلو اور بےاحتیاطی درست ہے کہ اپنی ضروری اخراجات اور اپنے اہل و عیال کے واجب نان ونفقہ کےلیے بھی دوسروں کا محتاج ہوجائے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ لڑکے کو چاہیے کہ اپنا سارا مال و دولت کارِ خیر میں خرچ نہ کرے، بلکہ اس میں اعتدال کا خیال رکھے، بقدرِ ضرورت اپنے ذاتی ضروریات میں بھی خرچ کرے، اور وقتاً فوقتاً کارِ خیر میں بھی حصّہ لیتا رہے، اسی طرح اپنی شادی کے اخراجات،بیوی کے مہر اور نان و نفقہ کےلیے بھی اتنا مال محفوظ رکھے کہ شادی اور بعد کے تمام اخراجات بسہولت پورے کیے جاسکیں،تاکہ خرچ میں بےاعتدالی کی وجہ سے شادی کے معاملات متاثر نہ ہوں اور دوسروں کے محتاج ہونے کی نوبت پیش نہ آئے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلا تَبْسُطْها كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً."[سورة الإسراء، الآية:29]
ترجمہ: ”اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لینا چاہیے، اور نہ بالکل ہی کھول دینا چاہیے، ورنہ الزام خوردہ تہی دست ہو کر بیٹھ رہوگے۔“ (از بیان القرآن)
"وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً."[سورة الفرقان، آية:67]
ترجمہ: ”(یہ تو ان کی حالت طاعات بدنیہ میں ہے اور (اطاعت مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے کہ) وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں، اور ان کا خرچ کرنا اس (افراط و تفریط) کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔“ (از بیان القرآن)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة....»."
(كتاب الآداب، باب الحذر والتأني، الفصل الثالث، رقم الحديث:5067، ج:3، ص:1406، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خرچ کرنے میں میانہ روی نصف معیشت ہے۔“
فیض القدیر میں ہے:
"(التدبير) أي النظر في عواقب الإنفاق إذ التدبير كما قاله المحقق الدواني أعمال الروية في أدبار الأمور وعواقبها لتتقن الأفعال وتصدر على أكمل الأحوال (نصف المعيشة) إذ به يحترز عن الإسراف والتقتير وكمال العيش شيئان مدة الأجل وحسن الحال فيها."
(فصل في المحلى بأل، رقم الحدیث:3399، ج:3، ص:280، ط:المكتبة التجارية الكبرى مصر)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ولايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:563، ط: المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"اعلم أن الصدقة تستحب بفاضل عن كفايته وكفاية من يمونه، وإن تصدق بما ينقص مؤنة من يمونه أثم، ومن أراد التصدق بماله كله وهو يعلم من نفسه حسن التوكل والصبر عن المسألة فله ذلك وإلا فلا يجوز، ويكره لمن لا صبر له على الضيق أن ينقص نفقة نفسه عن الكفاية التامة."
(كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ج:2، ص:357، ط:ایج ایم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604100180
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن