بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں شوہر اور اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

میں اپنا ذاتی ملکیتی رہائشی مکان جس کی مالیت 12 کروڑ پاکستانی روپیہ ہے، کو بیچ کر اپنے، اپنے شوہر اور چار بچوں (یعنی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) کے درمیان شرعی حساب سے تقسیم کرنا چاہتی ہوں، آپ سے گزارش ہے کہ شریعتِ مطہرہ کی رُو سے ہر ایک کے حصے کے حوالے سے راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی  جائیداد   میں   کوئی حق  و حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتاہے،  تاہم   اگر صاحبِ  جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی  جائیداد  خوشی  ورضا سے  اولاد وغیرہ کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو  جائیداد   تقسیم کی جائے  وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ  حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکوٰۃ  المصابیح، باب العطایا، 1 /261، ط: قدیمی)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، 3/193، ط: دارالاشاعت)

درج بالا تفصیل کی رُو سے آپ  کی زندگی میں اپنے مملوکہ مکان میں شوہر اور بچوں کا شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں ہے، البتہ اگر آپ خود اپنی خوشی سے  اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد (مثلا مملوکہ مکان یا کوئی بھی مملوکہ چیز)   تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو شرعاً اس کا  طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی جائیداد  میں سے جتنی مقدار اپنے لیے  رکھنا چاہتی ہیں وہ رکھنے کے بعد اپنی جائیداد  میں سے کم از کم چوتھائی حصہ اپنے شوہر کو دینے کے بعد باقی جائیداد اپنی  تمام  اولاد (دو بیٹوں اور دو بیٹیوں) میں برابر تقسیم کردیں، یعنی مکان میں سے جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ بیٹی کو بھی دیں،  نہ کسی کو محروم کریں اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کریں، ورنہ آپ نا انصافی کی مرتکب ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گی ،البتہ اگر آپ کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار  یا ضرورت مند ہونے  کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ دوسری بات یہ بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہبہ (گفٹ) کے شرعا معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جائیداد  تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ محض نام کرنے سےشرعاً ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة: أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية، ولو كنت مؤثراً أحداً لآثرت النساء على الرجال». رواه سعيد في سننه، وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم». فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئاً لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى. وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا: يكون آثماً في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلاتنصرف  الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لايعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ".

(کتاب الوقف،4/ 444،ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

و في الرد : (قوله: وإن قصده) بسكون الصاد ورفع الدال، وعبارة المنح: وإن قصد به الإضرار وهكذا رأيته في الخانية (قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي".

(كتاب الهبة،5/ 696،ط: سعید)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً".

(كتاب الهبة،3/ 462، ط:زکریا، هند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وهب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار  ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ".

(كتاب الهبة، الباب السادس فى الهبة للصغير،4/ 391، ط: رشيديه) 

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".

(كتاب الهبة،5/ 690، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں