بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو القعدة 1446ھ 15 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنے حق کی وصولی کے لئے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانا


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے میں کہ زید نے عمروکی زمین پر دعوی کیا کہ یہ زمین میری ہے ، عمرو نے انکار کیا کہ یہ زمین تو میرے آباء و اجداد سے ہمارے قبضے میں چلی آرہی ہے لہذا زمین میری ہے ، بالاخر دونوں شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے کیلئے ایک عالم دین کے پاس چلے گئے، مدعی کے پاس گواہ نہیں تھے،  تو مولوی صاحب نے مدعی علیہ کو قسم کھانے کیلئے کہا کہ آپ منکر میں ،  لہذا آپ قسم اُٹھائیں کہ یہ زمین میری ہے،  مدعی کا کوئی حق نہیں ہے، مدعی علیہ نے ان کے حکم کے مطابق قسم کھائی  کہ  یہ زمین میری ہے، اس کے بعد مولوی صاحب نے مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ سنا دیا کہ شرعاً اس زمین میں مدعی کا کوئی حق نہیں، یہ زمین آپ کی ہی ہے، اس حوالے سے چند باتیں پوچھنے کی ہیں

(1) اس مذکورہ بالا مسئلہ میں مولوی صاحب کا فیصلہ حق بجانب ہے یا نہیں ؟

(2) قسم کھانے کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟ ہمارے علاقے میں جس بندے کو  قسم دی جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے وضو بناتا ہے پھر مسجد جاکر قرآن پاک اُٹھاتا ہے اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ کہتا ہے کہ اس قرآن کا  وبال اور عذاب میرے اوپر آجائے، اگر یہ زمین میری نہ ہوں ، تین دفعہ یہ دہراتا ہے اور یہ منظر سارا مجمع دیکھ رہا ہوتا ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ قسم کھاتے وقت قرآن پر ہاتھ رکھنا، پھر قسم کھانا یہ شرعاً ضروری ہے یا یہ صرف جہالت پر مبنی رواج ہے ؟

(3): ہمارے علاقے میں یہ بہت بھاری چیز سمجھی جاتی ہے ( قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا، یا مذکورہ کلمات کا ادا کرنا جبکہ محض قسم کھانا کہ اللہ تعالی کا نام لیکر میں قسم اٹھاتا ہوں۔ یہ بات ایسی ہے۔ یہ عوام کی نظر میں معمولی چیز سمجھی جاتی ہے کہ قسم تو ہم ہر موقع پر اٹھا سکتے ہیں اس میں کیا حرج ہے، البتہ جب قرآن پاک کا نام لیا جاتا ہے تو گھبرا جاتے ہیں کہ ایک ایکڑ زمین پر اپنی آخرت کو تباہ کیوں کروں ، آب پوچھنا یہ ہے کہ مدعی علیہ کو جب قسم اٹھا نے کا مکلف بنایا جاتا ہے تو یہ ایک شرعی حکم کے طور پر قسم اٹھانے کیلئے تیار ہوتا ہے،  تو اس میں گھبرانے کی کی ضرورت ہے؟ ( بالخصوص جب مدعی علیہ اپنے دعویٰ میں حق بجانب بھی ہوں )

(4) عام طور پر ہمارے علاقے میں لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوا ہے کہ جب کسی بندے کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم اُٹھانے کا مکلف بنایا جاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ قرآن کا احترام ملحوظ رکھیں اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم نہ کھائے بلکہ مدعی کو وہ سب کچھ دیدے۔ جو مدعی نے اُن کے متعلق دعوی کیا ہے خواہ زمین ہوں ، پلاٹ ہو، مکان ہو، یا باغ ہو اگر چہ مدعی علیہ کے آباء و اجداد سے اُن پر قبضہ چلا آیا ہو، اور آس پاس قریب رہنے والے لوگ بھی مدعی علیہ کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مدعی کا یہاں کوئی حق نہیں ہے اس کے باوجود اگر مدعی علیہ اپنا حق بچانے کیلئے قسم کھاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی توہین ہے۔ اس نے بڑی گستاخی کی ، آپ یہ قرآن پاک کے عذاب اور وہاں سے کسی طرح بچ نہیں سکتا ۔ مذکورہ مسئلہ کے بارے میں دلائل کے ساتھ تفصیل مطلوب ہے۔ کیونکہ مدعی علیہ کہتا ہے جب قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا ، گستاخی ہے، تو ہین ہے ، تو شرعاً میرے لئے اپنا حق بچانے کا اور طریقہ کیا ہے؟ 

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مولوی صاحب کا فیصلہ شریعت کے مطابق ہے۔

(2)قسم اٹھانے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی قسم اٹھاکر  مدعی کے دعوی کا انکار کیاجائے، اس کےعلاوہ باقی چیزیں شرعاًقسم میں داخل نہیں ، البتہ اگر کوئی قرآن  ہاتھ میں لے کرقسم اٹھائے،  تو اس پر بھی قسم کے احکام جاری ہوں گے، لیکن قرآن پر قسم اٹھانے کو لازمی سمجھنا  درست نہیں ہے۔

(3)اپنے حق کی وصولی کے لئے قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(4)اپنے حق کی وصولی کے لئے قسم اٹھانا جائز ہے، اور یہ سمجھنا کہ قسم اٹھانے کے بجائے مدعی کو محض اس کے دعوی کی بنیاد پر وہ چیز دی جائے جس پر دعوی کیا ہے، تو اس طرح تو کسی کے لئے اپنی جان مال عزت اور آبرو کا تحفظ ناممکن ہوجائے گا، اپنے حق کو بچانے کے لئے قسم اٹھانے میں کوئی گستاخی نہیں ہے، اس لئے کہ مذکورہ طریقہ   سے تو مظلوم کی دادرسی کے بجائے ظالم کو مزید جری کرنا اور لوگوں کی جان مال عزت و آبرو کو غیر محفوظ بنانا ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لو يعطى الناس بدعواهم لادعى ناس دماء رجال وأموالهم ولكن اليمين على المدعى عليه" . رواه مسلم وفي «شرحه للنووي» أنه قال: وجاء في رواية "البيهقي" بإسناد حسن أو صحيح زيادة عن ابن عباس مرفوعا: "لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر."

(کتاب الاِمارۃ و القضاء، باب الاَقضیة و الشھادات، الفصل الاَول، ج:2، ص:1110، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

مرقات المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

" قال النووي: هذا الحديث قاعدة شريفة كلية من قواعد أحكام الشرع، ففيه أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه، فإن طلب يمين المدعى عليه فله ذلك، وقد بين صلى الله عليه وسلم الحكمة في كونه لا يعطى بمجرد دعواه أنه لو أعطي بمجردها لادعى قوم دماء قوم وأموالهم واستبيح، ولا يتمكن المدعى عليه من صون ماله ودمه،"

(کتاب الاِمارۃ و القضاء، باب الاَقضیة و الشھادات، ج:6، ص:2439، ط:دار الفكر، بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال: محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل لو قال: والقرآن لا يكون يمينا ذكره مطلقا، والمعنى فيه، وهو أن الحلف به ليس بمتعارف فصار كقوله: وعلم الله، وقد قيل هذا في زمانهم أما في زماننا فيكون يمينا، وبه نأخذ، ونأمر، ونعتقد، ونعتمد، وقال: محمد بن مقاتل الرازي لو حلف بالقرآن قال: يكون يمينا، وبه أخذ جمهور مشايخنا رحمهم الله تعالى كذا في المضمرات."

(کتاب الاَیمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا، الفصل الأول في تحليف الظلمة وفيما ينوي الحالف غير ما ينوي المستحلف، ج:2، ص:53، ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

"قال الحسن بن زياد عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا شك لرجل فيما يدعي عليه فينبغي له أن يرضي خصمه ولا يعجل بيمنه ويصالحه وإن كان في شبهة ينظر إن كان أكبر رأيه أن دعواه حق فلا يسعه أن يحلف وإن كان أكبر رأيه أن دعواه باطلة يسعه أن يحلف هكذا في محيط السرخسي الاستحلاف يجري في الدعاوى الصحيحة دون فاسدتها كذا في الفصول العمادية فإن صحت الدعوى سأل المدعى عليه عنها فإن أقر أو أنكر فبرهن المدعي قضي عليه وإلا حلف بطلبه كذا في كنز الدقائق.إذا توجهت اليمين على المنكر إن شاء حلف إن كان صادقا وإن شاء فدى يمينه بالمال كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الدعوی، الباب الثالث في اليمين، الفصل الأول في الِاستحلاف والنكول، ج:4، ص:13، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال ) اگر کوئی شخص مسلمان کسی معاملہ میں مسلمان کو حلف قرآن شریف کا دے اس طریق سے کہ وقت اظہار اس کے ہاتھوں پر قرآن شریف رکھے ، آیا اس طور سے حلف ہو جاتے ہیں یا نہیں ؟

( الجواب ) در مختار میں ہے وقال العيني وعندى ان المصحف يمين لا سيما في زماننا قوله وقال العيني عبارته وعندى لو حلف بالمصحف او وضع يده عليه وقال وحق هذا فهو يمين ولاسيما في هذا الزمان الذى كثرت فيه الا يمان الفاجرة ورغبة العوام فى الحلف بالمصحف الخ ۔  اس کا حاصل یہ ہے کہ اس زمانہ میں قرآن ہاتھوں پر رکھ کر حلف دینا قسم ہے یعنی اس سے قسم ہو جاتی ہے اور احکام یمین اس سے متعلق ہوجاتے ہیں۔"

(کتاب الاَیمان، ج:12، ص:41، ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں