بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنا حق وصول کرنے کے لیے وظیفہ


سوال

ہم نے بہت لوگوں کو پیسے دیےتھے، اب وہ لوگ ہمارے پیسے نہیں دے رہے ہیں، کوئی ایسی دعا بتا دیں جو وہ ہمارے پیسے واپس کر دیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی کاحق مارنا یا کسی کے حق پر قبضہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور جو شخص کسی کا واجب حق ادا کرنے پر قادرہوکر بھی ادا نہ کرے وہ ظالم، غاصب  اور سخت گناہ گار ہے؛ لہذا صاحبِ حق  شرعی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حق کی واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے، اگر غاصب زبانی مطالبے سے ادا نہ کرے تو سماجی اثر و رسوخ استعمال کرے، اگر کسی بھی طرح حق واپس دینے پر راضی نہ ہو تو صاحبِ حق کو  قانونی چارہ جوئی کی شرعاً اجازت ہے۔

اواگر  قانونی کار روائی کے ذریعے بھی اس کا حصول ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں اگر غاصب کا مال صاحبِ حق کے پاس آئے تو  وہ اپنی رقم کے بقدر اس میں سے وصول کرسکتاہے، حق سے  زیادہ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، یہ یاد رہے کہ اس آخری مرحلے سے پہلے دیگر ذرائع استعمال کرے، اگر ہر طرف سے مایوسی ہوجائے تو اس پر عمل کرسکتاہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل مذکوربالاطریقہ کو اپناکر اپناحق وصول کرسکتاہےاورساتھ ساتھ اپنے حق کی وصول یابی کے لیے‌رب أَنِّي ‌مَغْلُوبٌ ‌فَانْتَصِرْاورالمُذِلّ کاوردکرے۔

فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"(خذ ‌حقك ‌في ‌عفاف) أي عف في أخذه عن الحرام بسوء المطالبة والقول السيء (واف أو غير واف) أي سواء وفى لك حقك أو أعطاك بعضه لا تفحش عليه في القول قال في الفردوس: وهذا قاله لرجل مر به وهو يتقاضى رجلا وقد ألح عليه وأخرج العسكري عن الأصمعي قال: أتى أعرابي قوما فقال لهم: هل لكم في الحق أو فيما هو خير من الحق قالوا: وما خير من الحق قال: التفضل والتغافل أفضل من أخذ الحق كله وهذا الحديث قد عد من الأمثال قال الراغب: والأخذ حوز الشيء وتحصيله."

(حرف الخاء، ج:3، ص:433، ط:المكتبة التجارية الكبرى مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة)قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفاً. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع، فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة، كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري: أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان، لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:
عفاء على هذا الزمان فإنه ... زمان عقوق لا زمان حقوق
وكل رفيق فيه غير مرافق ... وكل صديق فيه غير صدوق"

(كتاب السرقة، مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة، ج:4، ص:95، ط:دار الفكر بيروت)

تفسیررازیمیں ہے:

"فدعا ربه ‌أني ‌مغلوب ‌فانتصر 

ترتيبا في غاية الحسن لأنهم لما زجروه وانزجر هو عن دعائهم دعا ربه أني مغلوب."

(ج:29، ص:295، طدار إحياء التراث العربي بيروت)

اعمال قرآنی میں مولانا اشرف علی تھانوی(رحمہ اللہ) لکھتے ہیں:

"المذل:اور جس کا حق دوسرے کے ذمہ آتا ہو اور وہ اس میں ٹال مٹول کرتا ہو اس کو بکثرت پڑھنے سے وہ اس کا حق ادا کرے۔"

(برائے حفظ از حسدِ حاسد و وصول حق، ص:142، ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں