بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پردیا ہوا فلیٹ پر خرچہ کس کے ذمہ ہے؟ اور اپنا حق بتائے بغير وصول كرنے كا حكم


سوال

میں نے اپنا فلیٹ کرایہ پردیا ہواتھا،جس میں پانی استعمال کے لیے کھارا تھا، چناں چہ مکان رہنے والے تمام لوگوں کے کہنے پر کہ میٹھے پانی کی لائن لگوادیں، جو خرچہ آئے گا ہر ایک کے حصے میں ، وہ ہم ادا کریں گے، چناں چہ پانچ کرایہ دار  اپنے اپنے پورشن  کی لائن کے  خرچےدینے پر راضی ہیں، البتہ ایک کرایہ دار وہ مذکورہ پائپ لائن کی مد میں ہونے والے خرچے کو جو ان کے حصے میں آیا ہے دینے سے انکار کررہاہے اور اس نے دو مہینے کا کرایہ بھی نہیں دیا ہے،کیا میں پانی کی لائن کی مد میں ہونے والے اخراجات اور کرایہ کو ایڈوانس میں دی گئی رقم میں سے کاٹ سکتاہوں؟

وضاحت:پائپ لائن تمام کرایہ داروں کی رضامندی سے ڈالی گئی ہے،  اور ابتداء ہی سے یہ طے پایاگیا کہ ہر ایک کے حصے میں جتنی رقم آئی گی وہ ادا کرے گا، سب نے یہ رضامندی سے قبول کیا اور سب کے گھر میٹھا پانی پہنچ رہاہے۔

جواب

واضح رہے کہ کرایہ پر دی ہوئی چیز میں ملکیت مالک کی ہوتی ہے،اس لیے کرایہ پردی ہوئی چیز کو قابلِ انتفاع بنانے کی ذمہ داری اور ملکیت سے متعلق ساری ذمہ داری  اسی مالک کی ہوتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنا فلیٹ کرایہ پر دیاہے تو سائل ہی اس فلیٹ کا مالک ہے، مالکِ مکان کے لیے کرایہ دار پر ایسی تعمیر یا مرمت  کی شرط لگانا درست نہیں جس کا فائدہ مدت کرایہ کے بعد بھی برقرار رہے،لہٰذا سائل کا میٹھے پانی کی  پائپ لائن لگواتے وقت کرایہ داروں سے شرط لگانا درست نہیں کہ ہرایک اپنے اپنے پورشن کی پائپ لائن کا خرچہ ادا کرے گا، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ جن کرایہ داروں سے میٹھے پانی کی پائپ لائن لگوانے کی مد میں پیسے لیے ہے وہ رقم انہیں واپس کردے اور جس نےنہیں دیاہے اس سے مطالبہ نہ کرے، تاہم سائل کے لیے پائپ لائن لگاکر میٹھے پانی کی سہولت میسر کرنے کی بناء پر اپنے فلیٹ کا کرایہ بڑھانے کی گنجائش ہے۔

 اگر کرایہ دار نے دوماہ کا کرایہ نہیں دیاہے  تو سائل اپنا حق ایڈوانس میں دی ہوئی رقم سے لے سکتاہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اپنے حق سے  زیادہ  وصول نہ کرے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد، أشباه.

(قوله: ومرمة الدار أو مغارمها) قال في البحر: وفي الخلاصة معزياً إلى الأصل: لو استأجر داراً على أن يعمرها ويعطي نوائبها تفسد؛ لأنه شرط مخالف لمقتضى العقد اهـ. فعلم بهذا أن ما يقع في زماننا من إجارة أرض الوقف بأجرة معلومة على أن المغارم وكلفة الكاشف على المستأجر أو على أن الجرف على المستأجر فاسد كما لايخفى اهـ. أقول: وهو الواقع في زماننا، ولكن تارةً يكتب في الحجة بصريح الشرط فيقول الكاتب: على أن ما ينوب المأجور من النوائب ونحوها كالدك وكري الأنهار على المستأجر، وتارةً يقول: وتوافقا على أن ما ينوب إلخ. والظاهر أن الكل مفسد؛ لأنه معروف بينهم وإن لم يذكر، والمعروف كالمشروط، تأمل".

(کتاب الاجارۃ،باب اجارۃ الفاسدۃ،ج:6،ص:46،ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(ومثل دينه ولو) دينه (مؤجلا أو زائدا عليه) أو أجود لصيرورته شريكا (إذا كان من جنسه ولو حكما) بأن كان له دراهم فسرق دنانير وبعكسه هو الأصح لأن النقدين جنس واحد حكما".

وفی حاشیتہ لابن عابدین:

"(قوله ومثل دينه) أي مثله جنسا لا قدرا ولا صفة كما أفاده ما بعده (قوله ولو دينه مؤجلا) ؛ لأنه استيفاء لحقه والحال والمؤجل سواء في عدم القطع استحسانا؛ لأن التأجيل لتأخير المطالبة والحق ثابت فيصير شبهة دارئة وإن لم يلزمه.....................مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة (قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق:

عفاء على هذا الزمان فإنه ... زمان عقوق لا زمان حقوق

وكل رفيق فيه غير مرافق ... وكل صديق فيه غير صدوق".

(کتاب السرقة،ج:4،ص:94، 95، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں