بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنا گھر اسکیم کے تحت گھر / قرض لینا جائز نہیں ہے


سوال

آج کل گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے /بینکوں کی طرف سے"اپنا گھر اسکیم"متعارف کروائی جارہی ہے اس اسکیم کے تحت اگر کوئی شخص اپنا گھر خریدنا یا بنانا چاہتا ہے تو پاکستان کے تمام بینک صارف کو ایک کروڑ کا قرض بیس سال تک کی مدت کے لیے چند شرائط کی بنیاد پر گھر خرید کر یا گھر کی قیمت کا یقین کرکے رقم صارف کو فراہم کرتی ہے۔بینک کی طرف سے شرائط کچھ اس طرح ہیں  کہ صارف جتنی رقم کا گھر خریدنا چاہتا ہے مثلاً: ایک کروڑ کا گھر ہے تو اس کا پندرہ فیصد یعنی پندرہ لاکھ روپے صارف بینک کو ادا کرے گا جبکہ بقیہ پچاسی فیصد یعنی پچیاسی لاکھ روپے بینک اس میں ملاکر گھر صارف کو دے گا ،جس پر بینک بیس سال کی مدت تک پہلے پانچ سال سات فیصد منافع اور پھر بقیہ پندرہ سال تک دس فیصد منافع کی شرح سے وصول کرے گا ۔اور اگر صارف بیس سال سے پہلے بینک کو بقیہ رقم ادا کرنا  چاہے گا تو وہ بھی کرسکتا ہے۔ جب تک بینک کی رقم مکمل ادا نہیں  کی جائے گی، صارف کی طرف سے اس وقت تک  گھر کے تمام کاغذات و دستاویز  بینک اپنے پاس ضمانت کی صورت میں  رکھے گا ۔سوال یہ  ہےکہ اپنا گھر حاصل کرنے کے لیے   اس اسکیم کے تحت بینک سے گھر  لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں  ہماری معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے"اپنا گھر اسکیم" کے نام سے  ذاتی گھر مہیا کرنے کیلئے جو اسکیم متعارف کروائی گئی ہے ،اس کیلئے حکومت  کی طرف سے قرض فراہم کیا جاتا ہے  اور پھر  کچھ عرصہ  بعد حکومت جب  وہ قرض واپس لیتی ہے تواصل رقم کے ساتھ ساتھ مزیداضافی رقم بھی وصول کرتی ہے  جو کہ سود ہے ،جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ؛لہذا صورتِ مسئولہ میں ذکرکردہ طریقہ سے گھر خریدنے کیلئے حکومت سے سودی قرضہ لینا   شرعاً  ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

"وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۔"

(سورۃ البقرۃ:۲۷۵)

ترجمہ:  حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے ۔(بیان القرآن)

السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا " موقوف۔"

(باب كل قرض جر منفعة فهو ربا:573/5،رقم:10933،ط:دارالکتب العلمیۃ)

ابوداؤد ميں ہے :

"لعن رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم- آكل الربا وموكله وشاهده وكاتبه۔"

(باب في آكل الربا وموكله:119،118/2،ط:رحمانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں