بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آپس میں خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کا حکم


سوال

بیوی اور اس کی بھانجی کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کیا جاسکتا ہے؟ یعنی جن دو عورتوں کے درمیان خالہ اور بھانجی کا رشتہ ہو ان دونوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 جنابِ رسول اللہ ﷺ نے بھتیجی کو پھوپھی کے ساتھ اور بھانجی کو خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے آپس میں خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ عقد ِ نکاح میں جمع کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اگر دونوں کے ساتھ بیک وقت ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو کسی ایک کے ساتھ بھی نکاح صحیح نہیں ہوگا، لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک پہلے سے نکاح میں ہو اور پھر دوسری سے نکاح کرلیا جائے تو ایسی صورت میں پہلی کا نکاح بدستور برقرار رہے گا اور دوسری سے کیا ہوا نکاح صحیح نہیں ہوگا۔

 صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها."

(كتاب النكاح، باب لا تنكح المرأة علي عمتها،7 / 12، ط: دار طوق النجاة)

فتاوى ہندیہ میں ہے :

"(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها ... فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه ... وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد."

(كتاب النكاح، القسم الرابع المحرمات بالجمع،1/ 277، ط: رشيدية)

فتاوىٰ شامی میں ہے :

"(وإن تزوجهما معا) أي الأختين أو من بمعناهما (أو بعقدين ونسي) النكاح (الأول فرق) القاضي (بينه وبينهما) ويكون طلاقا (ولهما نصف المهر) يعني في مسألة النسيان إذ الحكم في تزوجهما معا البطلان وعدم وجوب المهر إلا بالوطء كما في عامة الكتب فتنبه.

(قوله: ونسي الأول) فلو علم الصحيح والثاني باطل ...

 (قوله: إذ الحكم إلخ) بيان للفرق بين المسألتين وذلك أن في مسألة النسيان صح نكاح السابقة دون اللاحقة وتعين التفريق بينهما للجهل ... أما في مسألة تزوجهما معا في عقد واحد فالباطل نكاح كل منهما يقينا."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات،3/ 40، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں