بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپارٹمنٹ کی مشترکہ جگہ میں مصلی بنانا


سوال

ہم ایسے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، جہاں تقریباً 88 مکینوں کا شیئر(حصہ ہے) جو مختلف مکاتب فکر اور مختلف مذاہب کے ساتھ منسلک ہیں، مثلاً:دیوبندی،بریلوی،اہل حدیث، ہندو اور عیسائی وغیرہ، وہاں ہم نے ایک مصلی(جائے نماز) مختص کیا تھا جوکہ اوپن تھا، اس میں نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی،صفیں بچھتی تھیں اور نماز کے بعد اٹھادی جاتی تھیں اور بعد میں اسی اپارٹمنٹ کے بچے اس میں کھیلتے تھے، اب اس مصلے کی باقاعدہ باؤنڈری بنادی گئی ہےیعنی گملوں وغیرہ کے ذریعے سے دونوں جانبوں سے روک دیا گیا ہے، اس جگہ بچے بھی کھیلتے تھے،کچھ لوگ رات میں گاڑی بھی پارک کرتے تھے اور بعض احباب کو گاڑی موڑنے میں آسانی ہوجاتی تھی،اب وہاں کے اکثر احباب اس فیصلے سے ناخوش ہیں،اب سب سے اجازت لینا ضروری ہے۔ 

از راہِ کرم شرعی نقطۂ نظر سے ہماری رہنمائی فرمادیجیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ مستقل مسجد یعنی مسجدِ شرعی کے علاوہ کسی اور جگہ باجماعت نماز پڑھنے سے جماعت کا ثواب تو مل جاتا ہے لیکن جامع مسجد میں نماز پڑھنے کے برابر ثواب نہیں ملتا، اس لیے جامع مسجد قریب ہوتے ہوئے مصلی میں نماز پڑھنے کا معمول بنالینا مسجد کی حق تلفی اور مکروہ ہے۔ 

لہذا اگر اس اپارٹمنٹ کے قریب کوئی مستقل مسجد موجود ہے تو مسجد میں ہی جاکر نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا جائے، اگر مستقل مسجد دور ہے اور نماز کے لیے وہاں جانے میں حرج ہو تو ایسی صورت میں کسی جگہ کو مصلی(جائے نماز) بناکر وہاں باجماعت نماز کا اہتمام کرنا بہتر ہوگا، لیکن مذکورہ اپارٹمنٹ میں جس جگہ مصلی بنایا گیا تھا چونکہ وہ جگہ اپارٹمنٹ کے تمام حصہ داران میں مشترک ہے اور اس کی باؤنڈری بنانے کی وجہ سے دیگر حصہ داران کو حرج بھی ہورہا ہے، اس لیے اس جگہ یا تو باؤنڈری نہ بنائی جائے اور نماز کی ادائیگی کے وقت صفیں بچھائی جائیں اور پھر اٹھالی جائیں جیساکہ پہلے ہوتا تھا  یااگر کوئی اور جگہ دستیاب ہوتو تمام حصہ داران سے مشورے کے بعد ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں مصلی کی باؤنڈری بنانے میں دیگر لوگوں کو حرج نہ ہو اور اگر کوئی اور جگہ دستیاب نہ ہو تو تمام حصہ داران میں سے جتنے حصہ دار راضی ہوں ان کے حصے کے بقدر جگہ میں مصلی اور اس کی باؤنڈری بنائی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما ‌مصلى ‌العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ."

 (کتاب الوقف: 4/ 356، سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن صلى ‌بجماعة ‌في ‌البيت اختلف فيه المشايخ والصحيح أن للجماعة في البيت فضيلة وللجماعة في المسجد فضيلة أخرى فإذا صلى في البيت بجماعة فقد حاز فضيلة أدائها بالجماعة وترك الفضيلة الأخرى، هكذا قاله القاضي الإمام أبو علي النسفي، والصحيح أن أداءها بالجماعة في المسجد أفضل وكذلك في المكتوبات."

(كتاب الصلاة،الباب التاسع في النوافل،فصل في التراويح:1/ 116، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره.

(قوله: وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع زيلعي ودرر."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة: 152/2، سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100878

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں