بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپاہج شخص کی امامت کا حکم


سوال

اپاہج شخص کی امامت کاکیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ اپاہج امام رکوع اورسجدہ ادا کرنے پر قادر ہیں، اور نماز میں باقاعدہ رکوع اور زمین پر سجدہ  کرتے ہیں  تو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے، اور اگر  مذکورہ اپاہج امام باقاعدہ زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ نہیں  کرسکتا تو  رکوع اور سجدہ پر قادر مقتدیوں کے لیے ان کی  امامت  درست نہیں ہے۔

        فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح اقتداء  ...(وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم  تكبيره

(قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقا."

(کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، ج:1، ص:588، ط:ایچ ایم سعید)

        وفیہ ایضا:

"(و) لا (قادر على ركوع وسجود بعاجز عنهما) ؛ لبناء القوي على الضعيف (قوله: بعاجز عنهما) أي بمن يومئ بهما قائماً أو قاعداً، بخلاف ما لو أمكناه قاعداً فصحيح كما سيأتي. قال ط: والعبرة للعجز عن السجود، حتى لو عجز عنه وقدر على الركوع أومأ ."

(کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، ج:1، ص:579، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں