بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور وفات


سوال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور پیدائش کب ہوئی؟

جواب

تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی،جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ذاک یوم ولدت فیه ویوم بعثت أو أنزل علی فیه'' یعنی ''یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔''

(صحیح مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲،ج:2،:819،ط:دارإحياء التراث العربي بيروت)

البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے؟اس سلسے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں:

1۔2 ربیع الاول 

2۔8 ربیع الاول 

3۔17 ربیع الاول

4۔22 ربیع الاول 

جمہور محدثین اور مؤرخین کا قول یہ  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول کوہوئی ۔

البدایۃ والنھایۃ میں ہے:

"وقال محمد بن إسحاق: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم لاثنتي عشرة ليلة خلت من شهر ربيع الأول في اليوم الذي قدم فيه المدينة مهاجرا، واستكمل رسول الله صلى الله عليه وسلم في هجرته عشر سنين كوامل. قال الواقدي وهو المثبت عندنا وجزم به محمد بن سعد ."

( فصل في ذكر الوقت الذي توفي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ومبلغ سنه حال وفاته،ج:5، ص:255، ط: دار الفکر)

حضرت علامہ محمد ادریس کاندہلوی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ:

"ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم (12) ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم (8) ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔"

(سیرة المصطفی : ولادت باسعادت (1/ 52)،ط۔ کتب خانہ مظہری کراچی)

السيرة النبوية لابن كثير میں ہے:

"ثم الجمهور على: أن ذلك كان في شهر ربيع الأول، فقيل: لليلتين خلتا منه. قاله ابن عبد البر في الاستيعاب، ورواه الواقدي عن أبي معشر نجيح بن عبد الرحمن المدني. وقيل لثمان خلون منه. حكاه الحميدي عن ابن حزم. ورواه مالك وعقيل ويونس ابن يزيد وغيرهم عن الزهري عن محمد بن جبير بن مطعم.ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاريخ أنهم صححوه وقطع به الحافظ الكبير محمد ابن موسى الخوارزمي .ورجحه الحافظ أبو الخطاب بن دحية في كتابه: " التنوير في مولد البشر النذير ". وقيل لعشر خلون منه نقله ابن دحية في كتابه. ورواه ابن عساكر عن أبي جعفر الباقر ورواه مجالد عن الشعبي كما مر. وقيل لثنتي عشرة خلت منه، نص عليه ابن إسحاق، ورواه ابن أبي شيبة في مصنفه عن عفان، عن سعيد بن ميناء، عن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول، وفيه بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هاجر، وفيه مات، وهذا هو المشهور عند الجمهور، والله أعلم.

وقيل لسبعة عشر خلت منه: كما نقله ابن دحية عن بعض الشيعة. وقيل لثمان بقين منه: نقله ابن دحية من خط الوزير أبي رافع بن الحافظ أبي محمد ابن حزم عن أبيه.  والصحيح عن ابن حزم الأول أنه لثمان مضين منه، كما نقله عنه الحميدي وهو أثبت."

(السيرة النبوية لابن كثير: مولد رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:1،ص: 199،ط. دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق بھی سیرت نگاروں  اور مؤرخین کا اتفاق ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی وفات ماہِ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی، البتہ وفات کی تاریخ کے بارے  میں کئی اقوال ہیں:

1۔یکم ربیع الاول 

2۔2 ربیع الاول ،علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

3۔8 ربیع الاول 

4۔10 ربیع الاول

5۔12 ربیع الاول، یہ قول مشہور ہے۔

6۔17 ربیع الاول

حضرت علامہ محمد ادریس کاندہلوی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ: 

"مشہور قول کی بنا  پر (12) ربیع الاول کو وفات ہوئی،موسى بن عقبة اور لیث نے یکم ربیع الاول کو تاریخ وفات بتایا ہے اور کلبی اور ابو مخنف نے دوم ربیع الاول تاریخ وصال بتایا ہے۔"

(سیرة المصطفی للعلامة محمد ادریس کاندہلوی: تاریخ وفات(3/ 169، 170)،ط۔ کتب خانہ مظہری کراچی)

سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد میں ہے:

"عن ابن شهاب قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلة مضت من ربيع الأول».

تنبيهات:الأول: قال السّهيلي وابن كثير والحافظ: لا خلاف أنه صلى الله عليه وسلم توفي يوم الاثنين في ربيع الأول.قال: ابن عقبة حين زاغت الشمس.قال في المنهل: والأكثر على أنّه حين اشتدّ الضّحى.قال الأكثر: في الثاني عشر منه، وعند ابن عقبة والليث والخوارزمي من هلال ربيع الأول.وعند أبي مخنف والكلبي في ثانيه، وجزم به سليمان بن طرخان في «مغازيه» ورواه ابن سعد عن محمد بن قيس، ورواه ابن عساكر عن سعيد بن إبراهيم عن الزهري وعن أبي نعيم الفضل بن دكين ورجحه السهيلي."

(سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد: الباب الثلاثون في تاريخ وفاته صلّى الله عليه وسلم ،ج:12،ص: 305، 306،ط. بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں