بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ کو روضہ کہنے کا حکم


سوال

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو قبر کہنا افضل ہے یا روضہ؟ اور کیا قبر کہنے سے ثواب ہوگا اور روضہ کہنے سے ثواب ہونے اور ثواب نہ ہونے دونوں کا احتمال ہے۔

جواب

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر مبارک کو قبر  کہنا بھی درست ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں  مدفون ہیں، اور روضہ کہنا بھی درست ہے؛ کیوں کہ حدیث شریف میں اسی مقام کو روضہ کہاگیا ہے، اور روضہ کہنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مقام ذکر واذکار اور نمازوں کی آماج گاہ  ہے، اس وجہ سے روضہ کہنا افضل ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة، ومنبري على حوضي» ) . متفق عليه.

(روضة من رياض الجنة) : قيل: معناه أن الصلاة والذكر فيما بينهما يؤديان إلى روضة من رياض الجنة، وهذا كما جاء في الحديث: ( «الجنة تحت ظلال السيوف» ) وفي الحديث: ( «الجنة تحت أقدام الأمهات» ) أي: برها وصلتها، والتحمل عنها يوصل إلى دار اللذات. وفي حديث: ( «إذا مررتم برياض الجنة فارتعوا) قيل: وما رياض الجنة يا رسول الله ; قال: (المساجد» ) . وفي رواية: (حلق الذكر) . قال التوربشتي: وإنما سمى تلك البقعة المباركة روضة ; لأن زوار قبره وعمار مسجده من الملائكة والجن والإنس، لم يزالوا مكبين فيها على ذكر الله سبحانه وعبادته إذا صدر عنها فريق ورد عليها آخرون، كما جعل حلق الذكر رياض الجنة".

(کتاب الصلوۃ، باب المساجد ومواضع الصلاة، ج:2، ص:589، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں