بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کس طرز پر بنائی گئی اور جنازہ کس نے پڑھایا


سوال

سوال حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جنازہ کس نے پڑھایا تھا اور قبر مبارک لحد ہے یا شق ہے؟

جواب

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کے بارے میں سیرت اور تاریخ  کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام مؤمنین کی طرح نہیں تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر کو اٹھاکر جنازہ گاہ میں لاکر اجتماعی نمازِ جنازہ معروف ہیئت پر نہیں ادا کی گئی، بلکہ چند لوگوں کی جماعت حجرۂ مبارکہ میں داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ  پڑھ کر نکل جاتی تھی ، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھ كر چلی جاتی تھی، یوں مدینہ منورہ میں موجود تقریباً تمام مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے امت کی کامل خیر خواہی اور امانتِ رسالت کی ادائیگی کی گواہی دے کر امت کی طرف سے شکریہ ادا کیا ، چناں چہ ایک  روایت میں ہے کہ:

 آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ  آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وصیت (کہ تجہیز و تکفین اور قبر کھودنے کے بعد اولاً سب حجرے سے نکل جائیں، پہلے فرشتے نماز ادا کریں گے، پھر اہلِ بیتِ کرام اور پھر دیگر مسلمان) اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر (جیسا کہ روایات میں ہے) گروہ در گروہ کرکے پڑھی گئی، ایک جماعت داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ  پڑھ کر نکل جاتی، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھتی ، چناچہ ایک  روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما  مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے اور جنازہ نبوی کے سامنے کھڑا ہوکر سلام کیا، اور مہاجرین وانصار نے بھی سلام کیا، پھر   حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے سامنے  یہ کہا :” اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان  پر اتارا گیا، اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا،  یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا ،  اے اللہ!  ہم کو ان لوگوں میں سے بنا  جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع کر، آپ ہم کو اور ہم آپ کو پہچانیں،  آپ مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے،ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے “ ،لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے  تو عورتوں نے،عورتوں کے  بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا۔

علالت کے ایام میں ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو وصیت فرمائی:

’’انتقال کے بعد مجھے غسل دو اور کفن پہناوٴ اور میری چارپائی میری قبر کے کنارے (جو اسی مکان میں ہوگی) رکھ کر تھوڑی دیر کے لئے نکل جاوٴ، میرا جنازہ سب سے پہلے جبریل پڑھیں گے، پھر میکائیل ، پھر اسرافیل ، پھر عزرائیل ، ہر ایک کے ہمراہ فرشتوں کے عظیم لشکر ہوں گے، پھر میرے اہلِ بیت کے مرد، پھر عورتیں بغیر امام کے (تنہا تنہا) پڑھیں، پھر تم لوگ گروہ در گروہ آکر (تنہا تنہا) نماز پڑھو۔‘‘

چناں چہ اسی کے مطابق عمل ہوا، اوّل ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھی، پھر اہلِ بیت کے مردوں نے، پھر عورتوں نے، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، پھر عورتوں نے، پھر بچوں نے، سب نے اکیلے اکیلے نماز پڑھی، کوئی شخص امام نہیں تھا۔

 جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کی طرز  سے متعلق سوال ہے تو اس کے بار ے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لحد یعنی بغلی تھی ،چناچہ ایک  روایت میں ہے کہ:

اسی طرح اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی مشورہ میں موجود تھے، جیسا کہ جب  یہ معاملہ آیا کہ آپ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کی قبر  کون سی کھودی جائے، آیا لحد (بغلی قبر) بنائی جائے یا شگاف والی قبر  (جو ہمارے ہاں بنائی جاتی ہے) کھودی جائے؟  تو مہاجرین نے کہا کہ اہلِ مکہ کے طرز پر ’’شق‘‘  تیار کی جائے ، جب کہ انصار نے کہا کہ اہلِ مدینہ کے طریقہ پر ’’لحد ‘‘  تیار کی جائے ، اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع کو خطاب کرکے فرمایا: آپ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کے قریب  شور نہ کرو، اور آوازیں بلند نہ کرو، جیساکہ آپ کی زندگی میں آپ کے قریب شور نہیں کرسکتے، اس طرح آپ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کی رحلت کے بعد بھی آپ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کے قریب شور شرابہ نہ کرو، بلکہ شق اور لحد دونوں قسموں کی قبر تیار کرنے والے کے پاس آدمی  بھیج دو، جو پہلے آجائے وہ قبر تیار کردو ،  چناں چہ  ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے تشریف لےآئے اور آپ  صلیٰ اللہ علیہ وسلم  کی لحد  طرز پر قبر تیار ہوئی ۔

"السنن الكبرى" میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: لما صلي على رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أدخل ‌الرجال ‌فصلوا ‌عليه ‌بغير ‌إمام إرسالا حتى فرغوا، ثم أدخل النساء فصلين عليه، ثم أدخل الصبيان فصلوا عليه ثم أدخل العبيد فصلوا عليه إرسالا لم يؤمهم على رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد."

(‌‌كتاب الجنائز، ‌‌باب الجماعة يصلون على الجنازة أفذاذا، رقم الحدیث:6907، ج:4، ص:49، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

"المستدرك على الصحيحين" میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: من يصلي عليك يا رسول الله فبكى وبكينا وقال: مهلا، غفر الله لكم، وجزاكم عن نبيكم خيرا، إذا غسلتموني وحنطتموني وكفنتموني فضعوني على شفير قبري، ثم اخرجوا عني ساعة، ‌فإن ‌أول ‌من ‌يصلي ‌علي ‌خليلي ‌وجليسي ‌جبريل ‌وميكائيل، ‌ثم ‌إسرافيل، ‌ثم ‌ملك ‌الموت ‌مع ‌جنود ‌من ‌الملائكة، ثم ليبدأ بالصلاة علي رجال أهل بيتي، ثم نساؤهم، ثم ادخلوا أفواجا أفواجا وفرادى ولا تؤذوني بباكية، ولا برنة ولا بصيحة، ومن كان غائبا من أصحابي فأبلغوه مني السلام، فإني أشهدكم على أني قد سلمت على من دخل في الإسلام، ومن تابعني على ديني هذا منذ اليوم إلى يوم القيامة."

(‌‌كتاب المغازي، رقم الحديث:4399، ص:3، ص:62، ط :دار الكتب العلمية)

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

"فإن أبا بكر رضي الله عنه ‌كان ‌مشغولا ‌بتسوية ‌الأمور وتسكين الفتنة فكانوا يصلون عليه قبل حضوره وكان الحق له لأنه هو الخليفة فلما فرغ صلى عليه ثم لم يصل أحد بعده عليه."

(كتاب الصلاة، باب غسل الميت، ج:2، ص:67، ط:دار المعرفة)

"البداية والنهاية" میں ہے:

"قال الواقدي: حدثني موسى بن محمد بن إبراهيم قال: وجدت كتابا بخط أبي فيه أنه لما كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع على سريره، دخل أبو بكر وعمر، رضي الله عنهما، ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار بقدر ما يسع البيت فقالا: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته. وسلم المهاجرون والأنصار كما سلم أبو بكر وعمر، ثم صفوا صفوفا لا يؤمهم أحد، فقال أبو بكر وعمر وهما في الصف الأول حيال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم إنا نشهد أنه قد بلغ ما أنزل إليه، ونصح لأمته، وجاهد في سبيل الله حتى أعز الله تعالى دينه وتمت كلمته، وأومن به وحده لا شريك له، فاجعلنا إلهنا ممن يتبع القول الذي أنزل معه، واجمع بيننا وبينه حتى تعرفه بنا وتعرفنا به، فإنه كان بالمؤمنين رءوفا رحيما، لا نبتغي بالإيمان بدلا ولا نشتري به ثمنا أبدا. فيقول الناس: آمين آمين. ويخرجون ويدخل آخرون حتى صلى الرجال، ثم النساء، ثم الصبيان."

(كتاب سيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، سنة إحدى عشرة من الهجرة، فصل في كيفية الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم، ج:8، ص:133، ط:دار عالم الكتب)

"سنن ابن ماجه" میں ہے:

"عن عائشة، قالت: لما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا في اللحد والشق، حتى تكلموا في ذلك، وارتفعت أصواتهم، فقال عمر: لا تصخبوا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حيا ولا ميتا، أو كلمة نحوها، ‌فأرسلوا ‌إلى ‌الشقاق، ‌واللاحد ‌جميعا، ‌فجاء ‌اللاحد، فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم دفن صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الجنائز، باب ما جاء في الشق، رقم الحدیث:1558، ج:1، ص:497، ط:دار إحياء الكتب العربية)

حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ’’نشر الطیب‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اور ابنِ ماجہ میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: جب آپ کا جنازہ تیار کرکے رکھا گیا تو اوّل مردوں نے گروہ در گروہ ہوکر نماز پڑھی، پھر عورتیں آئیں، پھر بچے آئے، اور اس نماز میں کوئی امام نہیں ہوا۔‘‘

(نشر الطیب، ص:244،ط:تاج کمپنی)

علامہ سہیلي ’’الروض الانف‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور ایسا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ہی سے ہوسکتا تھا، ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصیت فرمائی تھی: علامہ سہیلي نے یہ روایت طبرانی اور بزار کے حوالے سے، حافظ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بزار اور طبرانی کے حوالے سے اور حضرت تھانویؒ نے نشر الطیب میں واحدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر نماز کون پڑھے گا؟ فرمایا: جب غسل کفن سے فارغ ہوں، میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا، اوّل ملائکہ نماز پڑھیں گے، پھر تم گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔‘‘

 (ج:2، ص:377، ط:ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں