بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن


سوال

کیا 12یا 9 ربیع الاول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے یا پھر انداز ہ ہے؟ کیونکہ اسلامی مہینے کبھی کبھار بادل وغیرہ سے کمی و بیشی ہوسکتی ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی  پیدائش کے دن کے متعلق تو تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت پیر کے دن ہوئی،جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ذاک یوم ولدت فیه ویوم بعثت أو أنزل علی فیه'' یعنی ''یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔''

(صحیح مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲،ج:2،:819،ط:دارإحياء التراث العربي بيروت)

البتہ پیدائش کے دن کی تاریخ حتمی اور متعین نہیں ہے ، اس بارے میں محدثین  کرام اور مؤرخین کا اختلاف ہے ،اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں  :

1۔2 ربیع الاول 

2۔8 ربیع الاول 

3۔17 ربیع الاول

4۔22 ربیع الاول 

جمہور محدثین اور مؤرخین کا قول یہ  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول کوہوئی ،جبکہ 12 ربیع الاول کا قول مشہور ہے۔

البدایۃ والنھایۃ میں ہے:

"وقال محمد بن إسحاق: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم لاثنتي عشرة ليلة خلت من شهر ربيع الأول في اليوم الذي قدم فيه المدينة مهاجرا، واستكمل رسول الله صلى الله عليه وسلم في هجرته عشر سنين كوامل. قال الواقدي وهو المثبت عندنا وجزم به محمد بن سعد ."

( فصل في ذكر الوقت الذي توفي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ومبلغ سنه حال وفاته،ج:5، ص:255، ط: دار الفکر)

حضرت علامہ محمد ادریس کاندہلوی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ:

"ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم (12) ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم (8) ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔"

(سیرة المصطفی : ولادت باسعادت (1/ 52)،ط۔ کتب خانہ مظہری کراچی)

السيرة النبوية لابن كثير میں ہے:

"ثم الجمهور على: أن ذلك كان في شهر ربيع الأول، فقيل: لليلتين خلتا منه. قاله ابن عبد البر في الاستيعاب، ورواه الواقدي عن أبي معشر نجيح بن عبد الرحمن المدني. وقيل لثمان خلون منه. حكاه الحميدي عن ابن حزم. ورواه مالك وعقيل ويونس ابن يزيد وغيرهم عن الزهري عن محمد بن جبير بن مطعم.ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاريخ أنهم صححوه وقطع به الحافظ الكبير محمد ابن موسى الخوارزمي .ورجحه الحافظ أبو الخطاب بن دحية في كتابه: " التنوير في مولد البشر النذير ". وقيل لعشر خلون منه نقله ابن دحية في كتابه. ورواه ابن عساكر عن أبي جعفر الباقر ورواه مجالد عن الشعبي كما مر. وقيل لثنتي عشرة خلت منه، نص عليه ابن إسحاق، ورواه ابن أبي شيبة في مصنفه عن عفان، عن سعيد بن ميناء، عن جابر وابن عباس أنهما قالا: ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول، وفيه بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هاجر، وفيه مات، وهذا هو المشهور عند الجمهور، والله أعلم.

وقيل لسبعة عشر خلت منه: كما نقله ابن دحية عن بعض الشيعة. وقيل لثمان بقين منه: نقله ابن دحية من خط الوزير أبي رافع بن الحافظ أبي محمد ابن حزم عن أبيه.  والصحيح عن ابن حزم الأول أنه لثمان مضين منه، كما نقله عنه الحميدي وهو أثبت."

(السيرة النبوية لابن كثير: مولد رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:1،ص: 199،ط. دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں