بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وفد نجران سے کیا گیا معاہدہ


سوال

 کیا مندرجہ ذیل عبارات درست ہے ؟ کیا واقعی ایسا کوئی معاہدہ ہے ؟ جواب دے کر ایک قومی مسئلہ حل کرنے میں مدد فرمائیں ۔

"621 عیسوی میں اہل نجران کا ایک وفد تاجدارِ مدینہ ، راحت و قلب سینہ ، وجِہ وجو د ِکائنات حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،اور پناہ کا معاہدہ کرنے کی درخواست کی ، تاکہ عیسائیوں کا مال ، جان، عبادت گاہوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے،اس معاہدے کی کچھ شقیں یہ ہیں : 

 1۔ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو تباہ نہیں کیا جائے گا۔

2۔ عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

3۔ عیسائیوں کے مذہبی رہنماوں کو عبادت گاہوں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔

4۔ عیسائی عورتوں کے ساتھ زبردستی نکاح نہیں کیا جائے گا۔

5۔ عیسائی جج اپنے قانون کےمطابق فیصلہ کریں گے (اسلامی قانون کے پابند نہیں ہوں گے ) ۔

معاہدہ میں یہ بھی لکھا گیا "میں محمد ﷺ بن عبداللہ اور اس کے سارے ساتھی یہ معاہدہ کررہے ہیں ،جو اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گاگویا (مفہوم) اس نے محمد ﷺ سے وعدہ خلافی کی ، اورعیسائیوں کے ساتھ یہ معاہد ہ تاقیامت ہے ، ابوداود شریف کی روایت کے مطابق(مفہوم) جس نے اہل ذمہ پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا ، یا اس کی مرضی کے خلاف اس سے کوئی چیز لی، یا اس پر حد سے زیادہ کام ڈالا، تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں اس کا وکیل ہوں گا، اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق جس نے معاہد یعنی اہل ذمہ کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ سکے گا، حالانکہ روایات کے مطابق جنت کی خوشبو چالیس  سال کی مسافت تک آئے گی، جس نبی کی محبت میں یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ تو ایک یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے ، لوگوں نے کہاکہ یہ تو یہودی ہے ، اس پر آپ نے فرمایاانسان تو ہے ۔کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں اہل ذمہ ہیں ؟جی بلکل تمام اقلتیں اہل ذمہ میں داخل ہیں ، اور ان کے ساتھ ظلم و زیاتی کرنے والا نہ صرف پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کررہاہے ،بلکہ اسلامی قوانین کے مطابق وہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں بدترین سزاکا حقدار ہوگا۔

جواب

سن 9 ہجری میں نجران کا وفد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے ان کو حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ و السلام کےبارے میں  ان کے غالی اعتقادات کی وجہ سے اٹھنے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئے تھے،یہاں تک کہ نصارئے نجران پر حق واضح ہو گیا ،مگر دیدی و دانستہ حق کے اتباع سے انکار کیا ،اللہ نے ان کے بارے میں آیتیں نازل فرمائیں ،آیتوں کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مباہلہ کے لیے تیار ہو گئے  اور اگلے روز حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور  حضرت سیدۃ النساء فاطمہ  الزہراء اور حضرت علی کو اپنے ہمراہ لے کر باہر تشریف لے آئے ،نصارائے نجران ان مبارک اور حسین چہروں کو دیکھ کر مرعوب ہو گئے اور  بالاخر انہوں نے مباہلہ سے گریز کیا اور سالانہ جزیہ دینا منظور کیا ،دوسرے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہد نامہ تحریر کرایا ،جس کا ترجمہ ذیل میں لکھا جاتا ہے  :

"بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ وہ تحریر  ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ نجران کے لیے تحریر کی ہے،جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے پھلوں،سونا ،چاندی ،اور اسلحہ اور غلاموں   پر قدرت حاصل  تھی، مگر آپ نے  ان پر احسان فرمایا اور سب کچھ چھوڑ کر   سالانہ دو ہزار حلے (یمنی چادروں کے دو جوڑے)مقرر کیے، ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں، ہر حلہ کی قیمت ایک کامل اوقیہ  ہو گی،حلوں کی کمی بیشی کو محسوب کیا جائے گا ۔ اگر وہ ان چادروں کے عوض اونٹ، گھوڑے یا زرہیں دیں گے وہ بھی اسی حساب سے لی جائیں گی۔اہلِ نجران پر  میرے فرستادہ ٹیکس وصول کنندہ لوگوں کی مہینہ بھر یا اس سے کم  مدت تک مہمانی لازم ہو گی ۔ یمن میں کوئی سازش یا بغاوت رونما ہوئی  تو وہ ہمیں تیس گھوڑے، تیس اونٹ، تیس زرہیں عاریتاً دیں گے۔اور جو چیزیں ان میں سے ہلاک ہو جائیں گیں تو میرے فرستادہ   اس کے ضامن ہوں گےیہاں تک کہ عاریۃ لیے ہوئے سامان کو  واپس کر دیں ۔

نجران کے غیر مسلم باشندوں اور ان کے گرد و نواح کے لوگوں کے لیے اللہ و رسول کا ذمہ اور امان ہے۔یہ ذمہ و پناہ ان کی جان، مذہب، جائیداد، مال اور عبادت گاہوں کے لیے ہے، ان کے حاضر و غائب کے لیے،اور  ان کے کارواں اور قاصد کے لیے بھی پناہ ہے،ان تمام مذہبی شعائر میں، جن پر وہ  قائم ہیں، کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق و مذہبی شعار اسی طرح باقی رہیں گے، ان میں کوئی تغیر و تبدل نہ ہو گا،ان کے سارے مذہبی عہدے باقی رہیں گے، ان کے کسی اسقف (لاٹ پادری) کو اس کے عہدے سے برطرف نہیں کیا جائے گا۔ ان کے کسی راہب کو رہبانیت سے الگ نہ کیا جائے گا۔نہ کسی خادمِ کلیسا کو اس خدمت سے محروم کیا جائے گا۔ان مذہبی پیشواؤں کے قبضہ میں جو تھوڑا بہت ہو گا وہ محفوظ رہے گا،ان پر جاہلیت کے زمانہ کے کسی خون یا عہد کی ذمہ داری نہیں ہے،ان کو جزیہ لینے کے لیے جمع نہ کیا جائے گا، بلکہ محصل خود جا کر وصول کرے گا،ان سے عشر نہیں لیا جائے گا۔ان کی زمین کو کوئی لشکر پامال نہ کرے گا،جو شخص ان میں سےکسی حق کا مطالبہ کرے گا تو ظالم و مظلوم کے درمیان انصاف کیا جائے گا ۔جو شخص ان میں سے سود کھائے گا تو میرا ذمہ اس سے بری ہے۔اگر کوئی شخص  ان میں سے ظلم اور زیادتی کرے گا تو اس کے بدلہ میں  دوسرا شخص ماخوذ نہ ہوگا ۔  اس امان نامہ میں جو کچھ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی پناہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ ہے، اس وقت تک کے لیے کہ اللہ کا حکم آئے۔بشرط یہ کہ وہ سب خیر خواہی برتیں اور ان حقوق کو ادا کرتے رہیں جن کا عہد کیا گیا ہے۔ ان پر کوئی ذرا برابر ظلم و زیادتی نہ ہو گی۔"

باقی سوال میں مذکورہ احادیث کو ترجمہ اور حوالوں کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"‌حدثنا ‌سليمان ‌بن ‌داود ‌المهري، ‌أخبرنا ‌ابن ‌وهب، ‌حدثني ‌أبو ‌صخر ‌المديني، ‌أن ‌صفوان ‌بن ‌سليم ‌أخبره ‌عن ‌عدة ‌من ‌أبناء ‌أصحاب ‌رسول ‌الله -‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم-، ‌عن ‌آبائهم ‌دنية، ‌عن ‌رسول ‌الله -‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم- ‌قال: "‌ألا ‌من ‌ظلم ‌معاهدا ‌أو ‌انتقصه ‌أو ‌كلفه ‌فوق ‌طاقته ‌أو ‌أخذ ‌منه ‌شيئا ‌بغير ‌طيب ‌نفس ‌فأنا ‌حجيجه ‌يوم ‌القيامة."

(کتاب الخراج و الفئی و الامارۃ،باب فی الذمی یسلم فی بعض السنۃ،اعلیہ جزیۃ،ج:4،ص:658،ط:دار الرسالۃ العالمیہ)

ترجمہ:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار جس آدمی نے عہد والے پر ظلم کیا (یعنی ذمی پر یا امن طلب کرنے والے پر) یا اس کے حق کو کم کیا یا طاقت سے زیادہ اس کو تکلیف دی (یعنی ذمی سے زیادہ جزیہ وصول کیا یا مال تجارت سے زیادہ عشر لیا جب کہ وہ مستامن حربی ہو اور تجارت کی غرض سے یہاں آیا ہو) یا اس سے بغیر اس کی خوش دلی کے کوئی چیز لی ہو تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے جھگڑنے والا ہوں گا ۔"(مظاہر حق)

صحیح البخاری میں ہے :

"حدثنا ‌قيس ‌بن ‌حفص: ‌حدثنا ‌عبد ‌الواحد: ‌حدثنا ‌الحسن ‌بن ‌عمرو: ‌حدثنا ‌مجاهد، ‌عن ‌عبد ‌الله ‌بن ‌عمرو ‌رضي ‌الله ‌عنهما،‌عن ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌قال: (‌من ‌قتل ‌معاهدا ‌لم ‌يرح ‌رائحة ‌الجنة، ‌وإن ‌ريحها ‌توجد ‌من ‌مسيرة ‌أربعين ‌عاما)."

(کتاب الخمس ،ابواب الجزیۃو الموادعۃ،باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم،ج:3،ص:1155،ط:دار ابن کثیر )

ترجمہ:

"جنابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو معاہدے والے کو قتل کر ڈالے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا ،حالاں کہ جنت کی خوشبو چالیس برس کے فاصلہ سے آجاتی ہے۔"(مظاہر حق)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا عمرو بن مرة قال: سمعت عبد الرحمن ابن أبي ليلى قال: كان سهل بن حنيف، وقيس بن سعد، قاعدين بالقادسية، فمروا عليهما بجنازة فقاما، فقيل لهما: إنهما من أهل الأرض، أي من أهل ‌الذمة، فقالا: إن النبي صلى الله عليه وسلم مرت به جنازة فقام، فقيل له: إنها جنازة يهودي، فقال: (ألست نفسا)."

(کتاب الجنائز،باب من قام لجنازۃ یہودی،ج:1،ص:441،ط:دار ابن کثیر )

ترجمہ:

"سہل ابن حنیف اور قیس ابن سعد  رضی اللہ عنہما قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے ،ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو دونوں حضرات کھڑے ہو گئے ،ان سے کہا گیا کہ یہ جنازہ ذمی کا ہے ،پس دونوں صحابیوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاندار نہیں ہے ۔"(مظاہر حق)

جہاں تک بات پاکستان میں رہنے والے عیسائیوں  کی ہے تو وہ ذمی ہیں،تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ شریعت نے  ذمیوں کےجو حقوق  عائد کیے ہیں ان کی پاسداری کریں ،وگر نہ کناہ گار ہوں گے ۔

نوٹ :جواب میں مذکورہ سوال میں ذکر کردہ معاہدہ اور احادیث کو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ ذکر کر دیا ہے ، سائل کو مذکورہ سوال سے اگرکوئی  فقہی مسئلہ   معلوم کرنا ہے ،تو اس کو تفصیل سے لکھ کر سوال ارسال کریں۔

فتوح البلدان میں ہے:

"حدثني الحسين، قال. حدثني يحيى بن آدم، قال أخذت نسخة ‌كتاب ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌لأهل ‌نجران من كتاب رجل، عن الحسن بن صالح رحمه الله، وهي. بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما كتب النبي رسول الله محمد لنجران إذ كان له عليهم حكمة في كل ثمرة وصفراء وبيضاء وسوداء رقيق فافضل عليهم وترك ذلك ألفي حلة حلل الأواقي، في كل رجب ألف حلة، وفي كل صفر ألف حلة كل حلة أوقية، وما زادت حلل الخراج أو نقصت عن الأواقي فبالحساب، وما نقصوا من درع أو خيل أو ركاب أو عرض أخذ منهم بالحساب وعلى نحران مثواة رسلي شهرا فدونه، ولا يحبس رسلي فوق شهر وعليهم عارية ثلاثين درعا، وثلاثين فرسا، وثلاثين بعيرا، إذا كان كيد باليمن ذو مغدرة أي إذا كان كيد بغدر منهم، وما هلك مما أعاروا رسلي من خيل أو ركاب فهم ضمن حتى يردوه إليهم، ولنجران وحاشيتها جوار الله وذمة محمد النبي رسول الله على أنفسهم، وملتهم، وأرضهم، وأموالهم. وغائبهم وشاهدهم وعيرهم وبعثهم. وأمثلتهم لا يغير ما كانوا عليه ولا يغير حق من حقوقهم. وأمثلتهم لا يفتن أسقف من أسقفيته. ولا راهب من رهبانيته. ولا واقه من وقاهيته على ما تحت أيديهم من قليل أو كثير، وليس عليهم رهق ولا دم جاهلية، ولا يحشرون ولا يعشرون ولا يطأ أرضهم جيش. من سأل منهم حقا فبينهم النصف. غير ظالمين ولا مظلومين بنجران. ومن أكل منهم ربا من ذي قبل فذمتي منه بريئة. ولا يؤخذ منهم رجل بظلم آخر ولهم على ما في هذه الصحيفة جوار الله. وذمة محمد النبي أبدا حتى يأتي أمر الله ما نصحوا وأصلحوا فيما عليهم غير مكلفين شيئا بظلم."

(صلح نجران ،ص:72،ط:مکتبہ الہلال )

الخراج لابی یوسف  ہے:

"‌كتاب ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌لأهل ‌نجران:بسم الله الرحمن الرحيم. هذا ما كتب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل نجران -إذ كان عليهم حكمه- في كل ثمرة وفي كل صفراء وبيضاء ورقيق؛ فأفضل ذلك عليهم وترك ذلك كله لهم على ألفي حلة من حلل الأواقي في كل رجب ألف حلة وفي كل صفر ألف حلة مع كل حلة أوقية من الفضة، فما زادت على الخراج أو نقصت عن الأواقي فبالحساب، وما قضوا من دروع أو خيل أو ركاب أو عروض أخذ منهم بالحساب. وعلى نجران مؤنة رسلي ومتعتهم ما بين عشرين يوما فما دون ذلك، ولا تحبس رسلي فوق شهر، وعليهم عارية ثلاثين درعا وثلاثين فرسا وثلاثين بعيرا إذا كان كيد باليمن ومعرة.وما هلك مما أعاروا رسلي من دروع أو خيل أو ركاب أو عروض؛ فهو ضمين على رسلي حتى يؤدوه إليهم.ولنجران وحاشيتها جوار الله وذمة محمد النبي رسول الله صلى الله عليه وسلم على أموالهم وأنفسهم وأرضهم وملتهم وغائبهم وشاهدهم وعشيرتهم وبيعهم وكل ما تحت أيديهم من قليل أو كثير، لا يغير أسقف من أسيقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا كاهن من كهنته وليس عليه ذنبه. ولا دم جاهلية ولا يخسرون ولا يعسرون ولا يطأ أرضهم جيش. ومن سأل منهم حقا فبينهم النصف1 غير ظالمين ولا مظلومين.ومن أكل ربا من ذي قبل فذمتي منه بريئة. ولا يؤخذ رجل منهم بظلم آخر، وعلى ما في هذا الكتاب جوار الله وذمة محمد النبي رسول الله أبدا حتى يأتي الله بأمره، ما نصحوا وأصلحوا ما عليهم غير متفلتين بظلم."

(باب فی قسمۃ الغنائماذا اصیبت من العدو ،فصل قصۃ نجران و اہلہا وکتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ص:85 ،چ:المکتبہ الازہریہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں