بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب نعلین مبارک پہنے تھے؟


سوال

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات عرش پر جوتے مبارک پہنے تھے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  معراج کی  شب نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کاعرش پر نعلین  مبارک  کے  ساتھ  جانا جو  اکثر قصہ گو  واعظوں میں مشہور ہے، اس سے متعلق  علامہ عبدالحی  لکھنوی رحمۃ  اللہ  علیہ   اپنی  تحقیق  اور   امام   زرقانی   کی   "شرح المواهب اللدنية"  کے  حوالے  سے فرماتے ہیں کہ : اکثر واعظین یہ قصہ بسط وتفصیل  سے ذکر کرتے ہیں کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نعلین مبارک کے ساتھ تشریف لے گئے"   یہ من گھڑت اور موضوع  قصہ ہے، اس کا حقیقتِ  حال  سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کا سفر تفصیلًا  کتب میں مذکور ہے،  لیکن اس قصے  کا معتبر  اور  مستند کتب  میں  کہیں بھی ذکر  نہیں  ملتا؛  لہذا اس طرح  کے من گھڑت اور موضوع  واقعات کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ  جو چیزیں مقاصدِ شریعت اور زندگی نہیں ہیں، اور جن چیزوں پر ہماری دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ موقوف نہیں ہے، ان میں  پڑنے، دھیان دینے اور  قیمتی اوقات  صرف کرنے کے  بجائے معراج کی حقیقت اور معراج کے موقع پر امت کو آقاعلیہ الصلاۃ والسلام  کی وساطت سے  جو عظیم تحفہ نماز کی صورت میں ملا  ہے، اس پر عمل کرنا چاہیے ،  پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ اہتمام ، اور پابندی سے نماز پڑھنا چاہیے۔ 

الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعہ میں ہے:

"ولنذكر ههنا بعض القصص التي أكثر وعاظ زماننا ذكرها في مجالسهم الوعظية وظنوها أمورا ثابتة مع كونها مختلقة موضوعة.فمنها؛ ما يذكرون من أن النبي لما أسري به ليلة المعراج إلى السموات العلى ووصل إلى العرش المعلى أراد خلع نعليه أخذا من قوله تعالى لسيدنا موسى حين كلمه: ﴿فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طوى﴾ . فنودي من العلي الأعلى: يا محمد! لا تخلع نعليك فإن العرش يتشرف بقدومك متنعلا ويفتخر على غيره متبركا، فصعد النبي إلى العرش وفي قدميه النعلان وحصل له بذلك عز وشأن.

وقد ذكر هذه القصة جمع من أصحاب المدائح الشعرية وأدرجها بعضهم في تأليف السنية وأكثر وعاظ زماننا يذكرونها مطولة ومختصرة في مجالسهم الوعظية.وقد نص أحمد المقري المالكي في كتابه فتح المتعال في مدح خير النعال، والعلامة رضي الدين القزويني، ومحمد بن عبد الباقي الزرقاني في شرح المواهب اللدنية على أن هذه القصة موضوع بتمامها قبح الله واضعها ولم يثبت في رواية من روايات المعراج النبوي مع كثرة طرقها أن النبي كان عند ذلك متنعلا، ولا ثبت أنه رقي على العرش وأن وصل إلى مقام دنا من ربه فتدلى {فكان قاب قوسين أو أدنى}، فأوحى ربه إليه ما أوحى.وقد بسطت الكلام في هذا المرام في رسالتي غاية المقال فيما يتعلق بالنعال فلتطالع."

(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعۃ ،المؤلف: محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304ـ)، فی  ذكر بعض القصص المشهورة، ص:37 و38، ط: مكتبة الشرق الجديد - بغداد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں