بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے نبی کہہ سکتے ہیں


سوال

کیا ہم لوگ جو کہتے ہیں کہ (ہمارے نبی)  جو کہ عام طور پر ہماری کتابوں میں بھی لکھا ہوتا ہے، کیا یہ الفاظ  کہنے درست ہیں؟  مثلاً ہمارے نبی کا کیا نام ہے؟  ہمارے نبی کے کتنے صاحب زادے تھے؟  تو "نبی اللہ"  جو  آپﷺ کو  کہا جاتا ہے تو وہ نبی تو اللہ کے ہوئے تو میری اصلاح فرمادیں کہ آپﷺ کو ہمارے نبی کہا جا سکتا ہے یا "نبی اللہ"  یعنی اللہ کے نبی پکارا جائے گا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاءِ  کرام علیہم الصلوات  والتسلیمات کی  پاکیزہ جماعت کو اپنے اپنے  زمانے میں سب کو اللہ تعالیٰ ہی نے نبی بنا کر  بھیجا ہے، اور سب کے سب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے،  لیکن نبی  چوں کہ امت کی طرف مبعوث کیے جاتے ہیں؛ اس لیے ہمارے استعمال کے اعتبار سے تعبیرات مختلف ہوسکتی ہیں، نبی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اس نسبت سے اللہ کے نبی، اور ہماری طرف بھیجے گئے ہیں اس نسبت سے ہمارے نبی ہوئے، ان ہی نسبتوں کے اعتبار سے استعمال مختلف ہوتاہے، مثلاً کوئی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اور کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور کہیں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور آقا علیہ السلام کہہ دیتا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے علاوہ مذکورہ بالا الفاظ کی تمام  تعبیرات  کا استعمال درست ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی آپ ﷺ کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنا ثابت ہے، یعنی "تمہارے نبی" اور "ہمارے نبی"، چناں صحیح بخاری میں ہے کہ لوگوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حجاج (کے مظالم وغیرہ) کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صبر کرو، کیوں کہ ہر آنے والا زمانہ پہلے سے بدتر ہوگا،یہ بات میں نے تمہارے نبی ﷺ سے سنی ہے۔

"عَنِ الزُّبيرِ بنِ عَدِيٍّ قال: أتَيْنا أنسَ بنَ مالكٍ - رضي اللهُ عنه - فشَكوْنا إليه ما نَلْقَى مِنَ الحجَّاجِ. فقَالَ: «اصْبروا فإنَّه لايأتي عليْكم زَمَانٌ إلَّا والَّذي بعدَه شَرٌّ مِنْه حتَّى تلْقَوا ربَّكُم»، سَمعْتُه مِنْ نبِيِّكُمْ صلَّى اللهُ عليهِ وسَلَّمَ. رَواه البُّخاريُّ."

(رواه البخاري، كتاب الفتن، باب لا يأتي زمان إلا الذي بعده شر منه، برقم (7068)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں