بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقراور مالداری


سوال

1."الفقر فخري":کیا یہ حدیث ہے؟اگر ہے تواس حدیث کا کیا مطلب ہے "کاد الفقر أن یکون کفرا" ؟

2. کیا نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم  غریب تھے؟ سیرت النبی میں ہمیں دونوں قسم کے واقعات ملتے ہیں تو ان میں مطابقت کیا ہے؟براہ کرم تفصیل سے راہنمائی کریں!

جواب

1. "الفقر فخري، وبه أفتخر."

محدثین عظام نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے، اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی  طرف کرنے سے احتراز کیا جائے،شیخ الاسلام  ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی( 728ھ) سے اس روایت کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:

"كذب لا يعرف في شيء من كتب المسلمين المعروفة."

’’یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کی معروف اور متداول کتب میں نہیں ہے۔‘‘

(الفتاوى الكبرى لابن تيمية،  5: 89، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1408ھ)

اسی طرح حافظ صغانی رحمہ اللہ تعالی(650ھ)نے "الموضوعات" میں،حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی( 852ھ) نے "التلخیص الحبیر" میں،  علامہ سخاوی رحمہ اللہ تعالی ( 902ھ) نے "المقاصد الحسنة" میں،ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی(1014ھ) نے"المصنوع" ، اور "الأسرار المرفوعة" میں، محدث عجلونی رحمہ اللہ تعالی(1160ھ) نے "کشف الخفاء" میں  اس روایت کو موضوع قرار  دیا ہے۔  

(الموضوعات للصغاني، الرقم: 77، ص: 52، دار المأمون، ط: الثانية، 1405ھ)

(التلخيص الحبير لابن حجر، كتاب قسم الصدقات ومصارفها الثمانية، الرقم: 1416، 3: 241، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1419ھ)

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الفاء، الرقم: 742، ص: 480، دار الكتاب العربي، ط: الأولى، 1405ھ)

(المصنوع في معرفة الحديث الموضوع، حرف الفاء، الرقم: 207، ص: 128، مؤسسة الرسالة، ط: الثانية، 1398ھ)

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، الرقم: 319، الرقم: 255، دار الأمانة، مؤسسة الرسالة)

(کشف الخفاء ومزیل الإلباس للعجلوني، حرف الفاء، 2: 102، المتكبة العصرية، ط: الأولى، 1420ھ)

"كاد الفقر أن يكون كفرا"كا مطلب:

حافظ مناوی رحمہ اللہتعالی(1031ھ) اس حدیث کا مطلب بتاتے ہیں کہ اس فقر سے  وہ فقر مراد ہے جس میں ضروریات زندگی بھی پوری نہ ہو سکتی ہوں، ایسا فقر کفر کے قریب کر دیتا ہے؛ کیوں کہ یہ انسان کو مالداروں سے حسد کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور حسد نیکیاں ختم کردیتا ہے، اسی طرح یہ فقر اسے مالداروں کے سامنے ذلیل ہونے پر مجبور کرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی عزت و آبرو پر آنچ آتی ہے، اور دین بھی محفوظ نہیں رہتا، اور اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی نہیں رہ پاتا، یہ تمام چیزیں اگر چہ کفر نہیں لیکن اس کی طرف لے جانے والی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فقر سے پناہ مانگی ہے۔چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

"(كاد الفقر) أي الفقر مع الاضطرار إلى ما لا بد منه، كما ذكره الغزالي (أن يكون كفرا) أي قارب أن يوقع في الكفر لأنه يحمل على حسد الأغنياء والحسد يأكل الحسنات وعلى التذلل لهم بما يدنس به عرضه ويلثم به دينه وعلى عدم الرضا بالقضاء وتسخط الرزق وذلك إن لم يكن كفرا فهو جار إليه ولذلك استعاذ المصطفى صلى الله عليه وسلم من الفقر."

(فيض القديرللمناوي، حرف الكاف، الرقم: 6199، 4: 542، المكتبة التجارية الكبرى، ط: الأولى، 1356ھ)

2.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے نمونہ عمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم امیروں کے بھی رسول تھے، اور غریبوں کے بھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں دونوں چیزیں ملتی ہیں، امیری بھی اور غریبی بھی، تاکہ  امیر و غریب ہر امتی اپنی غربت اور مالداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر سکے، ورنہ حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے  زمین و آسمان کے تمام خزائن پیش کیے گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمائے، وہ چاہتے تو دنیا کے سب سے امیر ترین انسان بن سکتے تھے،جس سے معلوم ہوتاہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اختیاری تھا۔

علاوہ ازیں احادیث کی  کتب میں کئی صحیح احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفقر سےاللہ تعالی کی   پناہ مانگی ہے، اور امت کو ترغیب دی ہے کہ وہ بھی فقر سے پناہ مانگیں،  اسی  طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مالداری سے پناہ مانگنا بھی ثابت ہے،امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی(458ھ) فرماتے ہیں :بنیادی طور پر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اور مالداری سے پناہ نہیں مانگی ، بلکہ فقر کے شر اور مالداری کے شر سے پناہ مانگی ہے، جیساکہ صحیح روایت میں موجود ہےکیوں کہ فقر کا شر انسان کو ذلت و رسوائی اور کفر تک لے جاتا ہے جبکہ مالداری کا شر سرکشی، نا فرمانی اور تکبر کی طرف لے جاتا ہے۔

(السنن الكبرى للبيهقي، کتاب قسم الصدقات، باب ما يستدل به على أن الفقير أمس حاجة  من المسكين، الرقم: 13153، دارالكتب العلمية، ط: الثالثة، 1424ھ)

ذیل میں چند  دعائیں نقل کی جاتے ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فقریا مالداری سے پناہ مانگی ہے:

 "عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: "اللهم إني أعوذ بك من الفقر والقلة والذلة، وأعوذ بك أن أظلم أو أظلم."

(مسند أحمد، مسند أبي هريرة، الرقم: 8053، 13: 418، مؤسسة الرسالة، ط: الأولى، 1421ھ)

دوسری روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں: 

"اقض عنا الدين، وأغننا من الفقر."

(صحيح مسلم، باب ما يقول عند النوم وأخذ المضطجع،  الرقم:2713، 4: 2084، دار إحياء التراث العربي)

ایک حدیث مبارک میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  لوگوں کو حکم دیا  کہ  وہ فقر سے پناہ مانگیں:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تعوذوا بالله من الفقر والقلة، والذلة، وأن تظلم أو تظلم."

(مسند أحمد، مسند أبي هريرة، الرقم: 10973، 16: 571، مؤسسة الرسالة، ط: الأولى، 1421ھ)

فقر اور مالداری کے شر سے پناہ مانگنا:

"عن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم، والمأثم والمغرم، ومن فتنة القبر، وعذاب القبر، ومن فتنة النار وعذاب النار، ومن شر فتنة الغنى، وأعوذ بك من فتنة الفقر..."

(صحيح البخاري، كتاب الدعوات، باب التعوذ من المأثم والمغرم، الرقم: 6368، 8: 79، دار طوق النجاة، ط: الأولى، 1422ھ)

حدیث مبارک میں مطلوب ’’مسکنت‘‘ سے مراد :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ایک دعا یہ تھی:

"اللهم أعشني مسكينا وتوفني مسكينا واحشرني في زمرة المساكين."

’’اے اللہ مجھے مسکینوں کے ساتھ زندہ رکھیے، مسکینی کی حالت میں اپنے پاس بلائیے، اور روزِ قیامت مسکینوں کی جماعت میں سےاٹھائیے۔‘‘

حافظ ضیاء الدین مقدسی رحمہ اللہ تعالی( 643ھ) نے اس روایت کو حسن درجہ کا قرار دیا ہے۔

(الأحاديث المختارة لضیاء الدین المقدسی، عبادۃ بن الصامت، 8: 271، دار خضر للطباعة والنشر، ط: الثالثة، 1420ھ) 

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیری طلب فرمائی ہے، جبکہ  محدثین اور  شارحینِ حدیث نے اس کا  مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد تواضع ہے نہ کہ فقر، چناں چہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی( 458ھ) فرماتے ہیں:

"والذى يدل عليه حاله عند وفاته أنه لم يسأل حال المسكنة التى يرجع معناها إلى القلة وإنما سأل المسكنة التى يرجع معناها إلى الإخبات والتواضع فكأنه -صلى الله عليه وسلم- سأل الله تعالى أن لا يجعله من الجبارين المتكبرين وأن لا يحشره فى زمرة الأغنياء المترفين."

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو کیفیت تھی( مالداری اور فتوحات کی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسکنت نہیں مانگی تھی جس کا تعلق مال و دولت کی کمی کے ساتھ ہو، بلکہ اس مسکنت کا تعلق تواضع اور انکساری کے ساتھ ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے یوں دعا کی  ہو کہ اے اللہ! مجھے ظالم اور متکبرین میں سے نہ بناییے، اور سرکش مالداروں کی جماعت میں سے نہ اٹھائیے۔‘‘ 

(السنن الكبرى للبيهقي، کتاب قسم الصدقات، باب ما يستدل به على أن الفقير أمس حاجة  من المسكين، الرقم: 13153، دار لاكتب العلمية، ط: الثالثة، 1424ھ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں