بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلا ضرورت شدیدہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے


سوال

کیا میں ایک یو ٹیوب چینل کھول سکتی ہوں؟ جس میں صرف میری آواز کو دخل ہو اور میری عمر 20 سال ہے۔

جواب

واضح رہے ضرورت کے وقت عورت کے لیے اجنبی مرد سے بات کرنا، اسی طرح کوئی دینی مسئلہ یا حدیث وغیرہ بیان کرنا اگرچہ جائز ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وغیرہا سے ثابت ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ضرورت واقعی ہو یعنی: کوئی دوسرا مرد مسئلہ بتلانے والا نہ ہو اور نہ اپنی کسی محرم خاتون کے توسط سے معلوم کیا جاسکتا ہو، اور اس مسئلہ کی دینی اعتبار سے فوری ضرورت وغیرہ بھی ہو، لیکن   یوٹیوب پر عورت کا چینل بناکر  تقریر کرنا یا مسائل بتلانا یا کسی بھی چیز سے متعلق بات کرنا کئی مفاسد سے خالی نہیں ہے:

1:عورت چینل پر باتصویر آئے گی، اور جان دار کی تصویر کشی اسلام میں حرام ہے۔

2:نامحرم مردوں تک آواز کا پہنچنا پایا جائے گا اور راجح قول کے مطابق اگرچہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کے اپنی آواز ظاہر کرنے میں بہرحال خوفِ فتنہ ہے، اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں  عورتوں کے لیے اذان کا حکم نہیں ہے، اور دیگر تسبیحات و تذکیر و تہلیل وغیرہ  بھی  پست آواز سے کہنے کا حکم ہے؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کو ضرورت کی بنا پر مردوں سے بات کرتے وقت آواز کو نرم رکھنے سے منع فرمادیا تھا؛ اس لیے بلاضرورت عورتوں کے لیے اجنبی مردوں سے بات چیت کرنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ  عورتوں کی آواز کی حد تک  بھی  یوٹیوب  چینل  پر  آنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

عورت کا تصویر کے بغیر اپنی آواز میں یوٹیوب پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنا

احکام القرآن میں ہے:

"وقوله تعالى: {وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ } روى أبو الأحوص عن عبد الله قال: (هو الخلخال)، وكذلك قال مجاهد: (إنما نهيت أن تضرب برجليها ليسمع صوت الخلخال) وذلك قوله: {ليعلم ما يخفين من زينتهن}.
قال أبوبكر: قد عقل من معنى اللفظ النهي عن إبداء الزينة وإظهارها لورود النص في النهيِ عن إسماع صوتها؛ إذ كان إظهار الزينة أولى بالنهي ممّا يعلم به الزينة، فإذا لم يجز بأخفى الوجهين لم يجزبأظهرهما؛ وهذا يدل على صحة القول بالقياس على المعاني التي قد علق الأحكام بها، وقد تكون تلك المعاني تارة جلية بدلالة فحوى الخطاب عليها وتارة خفية يحْتاج إلى الاستدلَال عليها بأصول أخر سواها .
وفيه دلالة على أنّ المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب؛ إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها؛ ولذلك كره أصحابنا أذان النساء؛ لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك، وهو يدل أيضا على حظر النظر إلى وجهها للشهوة؛ إذ كان ذلك أقرب إلى الريبة وأولى بالفِتنة."

(احکام القرآن للجصاص، ج:3، ص:465، ط:مکتبة رشیدیة)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا الأعمش، عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، ج: 7، ص: 463، رقم الحدیث: 5950، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وللحرة ولو حنثی جمیع بدنہا حتی شعرها النازل فی الأصح خلا الوجه والکفین، فظهر الکف عورة علی المذہب، والقدمین علی المعتمد ، وصوتها علی الراجح ․․․ قوله وصوتها معطوف علی المستثنی یعنی أنه لیس بعورة ح قوله علی الراجح عبارة عن البحر عن الحلیة أنه الأشبه وفی النهر وهو الذی ینبغي اعتماده .... ولا یظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة انا نرید بذلک کلامها؛ لأن ذلك لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب، ومحاورتهن عند الحاجة إلی ذلک ولا نجیز لهن رفع اصواتهن ولا تمطیطها ولا تلیینها وتقطیعها الخ".

(مطلب فى ستر العورة، ج:1، ص: 406، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں