بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے چہرے اور سر کے بالوں کا پردہ


سوال

کیا چہرے کا پردہ فرض ہے؟ ہم نے یہ سنا ہے کہ بال کا چھپانا چہرہ چھپانے سے زیادہ ضروری ہے، جب کہ چہرہ کھلا رکھنے میں فتنہ زیادہ ہے؟ 

جواب

چہرے کا پردہ:

 بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو  چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔

عورت چھپی ہوئی اور پوشیدہ رہنے کی چیز ہے۔ اس کے بارے میں شریعت میں حکم ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں رہے اور اپنے آپ کو چار دیواری تک محدود رکھے، البتہ ضرورتِ شرعی یا طبعی کے مواقع میں عورت کے لیے گھر سے باہر کسی بڑی چادر یا اس کے قائم مقام برقعہ سے اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کر نکلنے کی اجازت ہے۔

 فتنہ کے خطرہ کے پیشِ نظر عورت پر اپنے چہرے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی ڈھانپنا ضروری ہے،  بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عورت صرف ایک آنکھ کھلی رکھے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:   

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب  بتلایا‘‘۔

  (تفسیر ابن کثیر للإمام أبي الفداء الحافظ ابن کثیر الدمشقي ، سورة الأحزاب: تحت الآیة: {یدنین علیهن من جلابیبهن ...الخ: ۳؍۵۳۵۔ ط:قدیمی کراچی)

سر کے بالوں کا پردہ :

اجنبی مردوں سے  جس طرح چہرے کا پردہ  ہے، اسی طرح سر کے بالوں کابھی  پردہ  ہے، لہذا اجنبی کے سامنے سر کے بال کھولنا جائز نہیں، البتہ عورت اپنے محارم کے سامنے پنڈلی سے نیچے اور  گردن، سر اور   چہرہ کھلا رکھ  سکتی ہے، اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تو مرد  اپنی محرم عورتوں کے ان اعضاء  کی طرف دیکھ سکتا ہے، لیکن احتیاط میں ہی عافیت  ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367):

"(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (إلى الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته) وشهوتها أيضا ذكره في الهداية فمن قصره على الأول فقد قصر ابن كمال (وإلا لا، لا إلى الظهر والبطن) خلافا للشافعي (والفخذ) وأصله قوله تعالى :{ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [النور: 31] الآية وتلك المذكورات مواضع الزينة بخلاف الظهر ونحوه."

(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في النظر و المس، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں