بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے بریلوی عقائد سے توبہ کرنے کی وجہ سے اس کا نکاح بریلوی رکھنے والے شوہر سے نہیں ٹوٹتا


سوال

   میراتعلق بریلوی گھرانے سے تھا اور میرے شوہر کو اس جماعت کے ایک عالم نے خلافت بھی دی ہے،  میں نے ان تمام عقائد سے توبہ کی ہے اور شوہر کو سمجھایا بھی، لیکن وہ انہیں عقائد پر ہے، تو سوال یہ ہے کہ میرا ان سے نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں؟  اور مجھے ان عقائد والوں سے تعلق رکھنا چاہیے یا نہیں ؟

جواب

آپ کا شوہر اگر بریلوی  نظریات چھوڑنے کے  لیے تیار نہیں تو اس  وجہ سے  آپ کا نکاح اس سے نہیں ٹوٹے گا ، آپ کا نکاح  اس  سے برقرار ہے، اور اگر عقائد بگڑنے کا خطرہ نہ ہو  تو  آپ کے  لیے اپنے  خاندان کے  بریلوی نظریات والے لوگوں کےساتھ   تعلقات  رکھنا بھی جائز  ہے۔ آپ کو اللہ تعالی نے خلافِ شرع عقائد  سے توبہ کی توفیق دی ہے اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا  چاہیے،  اور تعلقات ختم کرنے کے بجائے  حکمت  ومحبت کے ساتھ  اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی ظلمات وتاریکیوں سے  نکالنے کی کوشش کرنی  چاہیے۔

جامعہ ہٰذا کے رئیس دار الافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، جس پر مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کی تصحیح موجود ہے:

"واضح رہے کہ بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان  کی گم راہی اور غلطی پر ہونے کا فتویٰ دیا جاسکتاہے، لیکن کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی دیوبندیوں میں سے کسی معتبر عالم نے بریلویوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اس لیے ہم بریلویوں کو مطلقاً کافر نہیں سمجھتے، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور ہم اختلاف و انتشار کے قائل نہیں ۔۔۔  البتہ بریلوی حضرات میں سے جو لوگ ہمیں اور اکابرِ دیوبند کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ دیوبندی مسلک کے لوگ ان سے تعلقات نہ رکھیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اتفاق کی جگہ انتشار ہوگا۔"

کتبہ: محمد عبدالسلام(10 / 10/ 1395هـ)                                                        الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی

فتاویٰ مفتی محمود    میں ہے:

’’دیوبندی  اور بریلوی دونوں مسلمان ہیں، آپس میں ان کا نکاح رشتے ناطے سب جائز ہیں‘‘۔

  (فتاویٰ مفتی محمود: باب الحظر والاباحۃ ج: 10/ 390)،ط. جمعیت پبلی کیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں