بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا دکان داری کرنا


سوال

 میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ جو بالغ ہے ایک دکان کھولی ہوئی ہے،  مختلف لوگ وہاں آتے ہیں اور چیزیں خریدتے ہیں،  میں ان سے پیسے وصول کرتی ہوں اور رسید دیتی ہوں، میں اور بیٹی عبایا  پہنتی ہیں، صرف آنکھیں کھلی رہتی ہیں، مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت نہیں ہے،  صرف آمدنی بڑھانا مقصود ہے،  کیا یہ دکان چلانا  صحیح ہے؟  اس کے بارے میں عالمانہ طور پر اس کی شرعی حثیت کا بتایا جائے، دلائل دیے جائیں!

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ  میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید کی ہوئی ہے اور  ضرورتِ شرعیہ کے بغیر اس کے لیے اپنے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی،  چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے،   نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے،  اور  اُس کا نفقہ  اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا ؛ تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے،   شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذا کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (2/ 467):

'' عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب''.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2054):

''(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال. و قيل: أي نظر إليها ليغويها و يغوي بها''.

البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو،   ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔

لہذا سوال مذکور میں آپ نے خود صراحتاً لکھا ہے کہ دکان چلانے کا مقصد " صرف آمدنی بڑھانا  ہے" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  نان نفقہ کی کوئی پریشانی نہیں ہے، اس لیے آپ کا اور  آپ کی بیٹی کا  اس طور پر دکان چلانا جائز نہیں ہے  جس میں غیر محارم سے واسطہ پڑتا ہو، اگرچہ آپ دونوں عبایا پہنتی ہیں؛ کیوں کہ غیر محارم سے بلا ضرورت بات چیت بھی ہوتی رہے گی جوکہ جائز نہیں ہے، نیز دکان اگرچہ گھر سے متصل ہو، لیکن چوں کہ یہاں عمومی آمد و رفت ہوگی؛  لہٰذا یہ گھر سے باہر نکلنے کے حکم میں  ہوگا۔

ہاں اگر آپ اپنے گھر کے اندر صرف خواتین کے  لیے دکان کھولیں، جس میں خریدار صرف خواتین ہوں، کسی غیر محرم کی آمد و رفت نہ ہو تو آمدن بڑھانے کے لیے بھی اس کی اجازت ہوگی۔

الجامع لأحكام القرآن (11/ 253):

"و إنما خصه بذكر الشقاء ولم يقل فتشقيان : يعلمنا أن نفقة الزوجة على الزوج ؛ فمن يومئذٍ جرت نفقة النساء على الأزواج ، فلما كانت نفقة حواء على آدم، كذلك نفقات بناتها على بني آدم بحق الزوجية."

الفتاوى الهندية (1/ 563،562):

''وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهنّ في عمل، أو خدمة۔ كذا في الخلاصة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهنّ مال، كذا في الخلاصة''.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 121)

''(وأما) النوع السادس: وهو الأجنبيات الحرائر، فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين ؛ لقوله تبارك وتعالى: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان''۔

''ویکره حضورهن الجماعة ولو لجمعة وعید و وعظ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذهب المفتی به لفساد الزمان … کما تکره إمامة الرجل لهنّ في بیت لیس معهنّ رجل غیره ولا محرم منه، کأخته أو زوجته أو أمته، أما إذا کان معهنّ واحد ممن ذکر أو أ مهنّ في المساجد لا ''.(شامی، باب الإ مامة ج۱ص۵۳۹)

فتح الباري لابن حجر (2/ 349)

'' ولأحمد والطبراني من حديث أم حميد الساعدية: «أنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إني أحب الصلاة معك! قال: قد علمت، وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك، وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك، وصلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك في مسجد الجماعة». وإسناد أحمد حسن، وله شاهد من حديث بن مسعود عند أبي داود'' .

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں