بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کی اچھی تربیت


سوال

میرا بیٹا 20 سال کا ہے،مسجد جاتا ہے نماز پڑھتا ہے،لیکن اس کےدوست اچھے نہیں،جس کی وجہ سے تمباکو کھانے لگا ہے،بد مزاج ہو گیا ہے،پڑھائی میں دل نہیں،رات کو جاگ کر موبائل دیکھتا ہے، براۓ مہربانی میری راہ نمائی کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو اپنے بیٹے کی اصل بیماری ( بری صحبت ) کا جب پتہ چل گیا،لہٰذا اس کا علاج کئے بغیر بیٹے کی بد مزاجی اور بگاڑ کی اصلاح بہت مشکل ہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اچھی صحبت پر اچھے اثرات اور بری صحبت پر برے اثرات کے بارے میں خوب وضاحت فرمائی ہیں،لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اپنے بیٹے کو نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اچھوں اور نیک لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی ترغیب دیں اور ان کو برے لوگوں کے ساتھ صحبت سے منع کرتے رہیں اور اس ماحول کی تبدیلی میں اس کی دلجوئی بھی کرتے رہیں،کیوں کہ سختی کا وقت شاید گزر چکا ہے،نیز بہتر ہے کہ تہجد کے وقت یا مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت صلاۃ الحاجۃ کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے اپنے بیٹےکی اطاعت و فرماں برداری کی دعا کریں، (صلاۃ الحاجۃ کا طریقہ جواب کے آخر میں ہے) نیز  ہر نماز کے بعد (وَ أَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّیَّتِيْ اِنِّيْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)پڑھے ، پڑھتے وقت "ذُرِّیَّتِيْ"  کے لفظ پر اپنے بیٹے کا خیال رکھے، ان شاء اللہ بیٹا فرماں بردار اور اچھاہوجائے گا۔

اعمالِ قرآنی میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے لکھا ہے:

"وَ أَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّیَّتِيْ اِنِّيْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(احقاف:15)،خاصیت: جس کی اولاد نافرمان ہو، وہ اس آیت کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ صالح ہوجائے گی،پڑھنے کے وقت   "ذُرِّیَّتِيْ "  کے لفظ پر اپنی اولادکا خیال رکھے۔"

(ص:30،ط:دارالاشاعت )

صلاۃ الحاجۃ کا طریقہ درج ذیل ہے:

 حدیث میں ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے کوئی خاص حاجت یا اس کے کسی بندے سے کوئی خاص کام پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود اور سلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یہ دعا کرے:

" لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْعِصْمَةَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ، وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَّالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، لَاتَدَعْ لِيْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَه وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَه وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا یَا أَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ".

سننِ ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا سويد بن سعيد، حدثنا أبو عاصم العباداني، عن فائد بن عبد الرحمن عن عبد الله بن أبي أوفى الأسلمي، قال: خرج علينا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: "من كانت له حاجة إلى الله أو إلى أحد من خلقه، فليتوضأ وليصل ركعتين، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، اللهم إني أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، أسألك ألا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها لي، ثم ليسأل من أمر الدنيا والآخرة ما شاء، فإنه يقدر."

(باب ما جاء في صلاة الحاجة،ج:2،ص:395،394،ط:دار الرسالة العالمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407101586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں