بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے حقوق


سوال

 اگر کوئی شادی شدہ بیٹی اپنے والدین کی دل سے خدمت کرتی ہو، یہاں تک کے اس کا شوہر بھی اس خدمت میں پیش پیش رہتا ہو ،اپنے والدین کی طرح ان کی خدمت کرتا ہو، وہ بیمار ہوں تو تمام کام کو چھوڑ کر بیٹی اور اس کا شوہر ان کی خدمت کرتے ہوں، مگر پھر جب والدین اپنے گھر صحت مند لوٹیں تو اس بیٹی اور داماد کو لعن طعن کرتے ہوں برا بھلا کہتے ہوں اور گھر سے دھکے مارکرنکالتےہوں، جبکہ دوسری اولاد جو ان کی خدمت تک کو حاضر نہ ہو ان سے بےجا محبت اور ان کے کہنے پر وہ عمل کرتے ہوں اور جب ان اولاد کے گھر جائیں تو دو، تین دن خدمت کے بعد مالی حساب کر کے دھکے مار کے نکالتی ہو اور پھر بھی ان نافرمان اولاد سے محبت ہو ، حتی کہ ان نافرمان اولاد نےوالدین کے  پیسے اور جائداد کو بھی لوٹا ہو اور پھر بھی والدین خدمت گذار اور نافرمان اولاد میں فرق کریں اور نافرمان کو خدمت گذار پر فوقیت دیں، تو ایسے میں خدمت گذار اولاد کیا کرے کیا وہ کنارہ کرسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں اس سلسلے میں دوطرفہ حقوق (اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر دونوں) کی حدود واضح کر دی گئی ہیں، قرآنِ کریم میں خدا تعالی نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کرکے اس کی اہمیت بتلادی ہے،اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کی شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے،  والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں۔

صورتِ مسئولہ میں سائل اوران کی بیوی کو والدین سے کنارہ نہیں کرناچاہیے، اگرسائل اور ان کی بیوی والدین کے ساتھ  حُسنِ سلوک کرتے ہیں اور ان کی خدمت و اطاعت بجالاتے ہیں، اس صورت میں والدین کو بھی ان  کا خیال رکھناچاہیے، اگر والدین بے جا  ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ،  اس صورت میں بھی والدین کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والدین جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں، اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں،  جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

"رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا."(بني إسرائيل:٢٤)

ترجمہ:" اے میرے پروردگار! ان دونوں (میرے والدین) پر رحمت فرمائیے، جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیاہے۔"(بیان القرآن)

اس حوالے سے رسول اللہ( ﷺ) کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:٣، ص:١٣٨٢، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے، ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں