بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل بیت کا مصداق اور جنگ جمل پراعتراض اس کاجواب


سوال

اہل بیت میں کون کون شامل ہیں ؟

اگر امہات المؤمنین شامل ہیں تو جنگ جمل کی وجہ کیا تھی؟

جواب

1۔"اہل ِبیت" سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ِ مطہرات ،ان کی اولاد اور داماد یعنی حضرت علی رضی اللہ ہیں،یہ سب اہلِ بیت میں شامل ہیں،حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’ بعض ائمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا، اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی{واذكرن مایتلى في بیوتكن}(رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں"نساءالنبی"کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے،حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے،اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ،
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ا ن کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی  {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا} اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)
ابن ِکثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو ائمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں ......آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ "انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا" ،ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان ہدایات کے ذریعےاغواء شیطانی ، معاصی اور قبائح سے حق تعالی اہل بیت کو محفوظ رکھے گااور پاک  کردے گا،خلاصہ یہ ہے کہ تطہیر ِتشریعی مراد ہے،تکوینی تطہیر جو خاصہ انبیاء ہے وہ مراد نہیں،اس یہ لازم نہیں آتا کہ سب معصوم ہوں اور ان سے انبیاء علیہم السلام کی طرح گناہ سرزد ہونا ممکن نہ ہو،جو کہ تکوینی تطہیر کا خاصہ ہے"

(معارف القرآن ج:7،ص:139،ط:مکتبہ معارف القرآن)

مذکورہ تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اہلِ بیت کا  اصل مصداق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجَ مطہرات  ہیں،لیکن چوں کہ آیت کے  نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی چادر میں  اپنی اولاد اور داماد یعنی حصرت علی رضی اللہ عنہ کو داخل کرکے فرمایا کہ اےاللہ !یہ میرے اہل بیت ہیں،لہذا یہ لوگ بھی بزبانِ رسالت اہل بیت میں شامل ہیں۔

التفسیرالکبیر میں ہے:

"و اختلفت الأقوال في أهل البيت، والأولى أن يقال هم أولاده وأزواجه والحسن والحسين منهم وعلي منهم لأنه كان من أهل بيته بسبب معاشرته ببنت النبي عليه السلام و ملازمته للنبي."

 (سورۃ احزاب،168/25ط:داراحیاءالتراث العربی)

2- جنگ جمل جس میں ایک جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ  تھے اور دوسری جانب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھاتھیں ،یہ لڑائی دھوکے میں چند مفسدوں(عبد اللہ ابن سبامشہور منافق وموجد مذہب شیعہ بھی انہیں مفسدین میں سے تھا) کی حیلہ سازی سے پیش آ گئی  تھی،ورنہ ان میں باہم نہ رنجش تھی ،نہ آپس میں وہ لڑنا چاہتے تھے اس سےاہل بیت ہونے کے شرف میں   کوئی نقصان  نہیں ہوتا "

(خلفائے راشدین ،صحابہ کرام وخلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے متعلق ضروری عقائد،ص:9،ط:البشری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں