بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کا حکم / سود نہ لینے کی قسم کا حکم


سوال

 بحثیت مسلمان میرا یہ ایمان ہے کہ سود کسی بھی زاویہ سے جائز نہیں ہوسکتا۔ سن ۲۰۰۳ ء میں نے غلاف کعبہ پکڑ کر اللہ ربّ العزت کی قسم اُٹھائی تھی کہ میں آئند ہ کبھی سود نہ لوں گا ، نہ دوں گا اور نہ کبھی کسی سودی معاملات میں کسی قسم کاذریعہ بنوں گا۔ اُس کے بعد  سے  الحمدللہ ابھی تک میں محفوظ ہوں، مغربی ممالک میں جو  مسلمان مقیم  ہیں، مغربی ریاست کی جانب سے انشورنش لازم ہے  مثلاَ : ڈرائیونگ لائیسنس انشورنس کے بغیر نہیں ملتا، حلال کاروبار کے لئے کمپنی کھولنا چاہتا ہوں پر انشورنس کے بغیر نہیں کام کر سکتے۔ میڈیکل بہت بہت مہنگا ہے کہ نقد علاج نہیں کرا سکتے ، مجبوراَ لوگ انشورنس کے بغیر علاج نہیں کرا سکتے  یہاں تک کہ وہاں کی مساجد کو بھی حفاظتی انشورنس لینا پڑتی ہے، خصوصاَ وہاں کی اسلامی بینکاری اور تکافل کی بھی شرعی سند پر اعتماد نہیں ۔ بیرونی ممالک  میں کاروبار بغیر انشورنس کام کرنا ناممکن سا ہوگیا ہے۔ ان امور میں تین باتیں غور طلب ہیں کہ:

1. ایک یہ کہ مذکورہ بالا عوامل پر انشورنس لینا کہ ریاست کی جانب سے قانونی طور پر مسلط ہے ، نہیں لینے کی صورت میں کام نہیں ہوسکتا۔

2. دوسری بات یہ ہے کہ انشورنس پر کسی حادثہ یا کسی بھی وجہ سے انشورنس سےسہولت کا پیسہ لینا یا ادا کرنا  یعنی قانونی تقاضا پورا کرنے کے لئے انشورنس لی ، لیکن مجبوراَ لینا یا اداکرنا پڑ گیا۔

3. غیر ضروری انشورنس سےمراعات لینا  جو کہ حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔ جب میں نے مذکورہ بالا عوامل پر امریکہ میں علماء کرام سےمسئلہ معلوم کیا تو انہوں نے انشورنس کی کراہت کے ساتھ اجازت کا کہا کہ اگر مسلمانان امریکہ یا یورپ یہ نہ کریں تو اس خطہ میں مسلمانوں کی آبادکاری نہیں ہو پائے گی اور دین اسلام نہیں پلے گا۔ جب کہ دوسری توجیہ یہ دی کہ عرب مسلم ممالک میں بھی یہ ہی نظام رائج ہے، لیکن میں ان کے جوابات سے مطمئن نہیں ہو سکا۔

سوال۱ ۔ مذکورہ بالا عوامل کو مدِنطر رکھتے ہوئے اگر میں نے صرف قانونی تقاضا پورا کرنے کے لئے انشورنس کی سہولت خریدی یا مجبوراًاستعمال کرنا پڑ گیا تو کیا میری قسم ٹوٹ جائے گی؟ آپ سے التماس ہے کہ اس بارے ہیں شرعی راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔

انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں جبری اور قانونی   طور پر اگر  انشورنس کرانا لازمی ہو تو دل سے ناجائز سمجھتے ہوئے انشورنس کرانے والے مجبور شخص کو  اس کا گناہ نہیں ہوگا،  البتہ  صرف اپنی جمع کی ہوئی رقم کی بقدر ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں اس سے زائد نہیں ۔سائل نے چوں کہ سود نہ لینے کی قسم کھائی ہے اگر سائل نے   انشورنس کرلیا یا اس کے ذریعے  سود لے لیا  یا  قانونی طور پر ادا کرنا پڑا اس کی وجہ سے سائل کی  قسم ٹوٹ جائے گی  اور اس پر سائل کو کفارہ دینا ہوگا اور  قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو صبح شام  دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا  دے  دے۔ اور اگر  سائل کے پاس اس کی وسعت نہیں ہے  کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو قسم کے کفارے کی نیت سے  مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ 

قرآن کریم میں ہے :

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

صحیح مسلم میں ہے :

"عن جابر، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء".

(باب لعن آکل الرباومؤکلہ،ج:3،ص:1219،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي".

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج:6،ص:403،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنعقدة، وهو أن يحلف على أمر في المستقبل أن يفعله، أو لا يفعله، وحكمها لزوم الكفارة عند الحنث كذا في الكافي".

(کتاب الایمان،الباب الثانی فیما یکون یمینا وما لا یکون یمینا،ج:2،ص:52،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں