بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کام کرکے پیسہ کمانے کا حکم


سوال

ایڈ پر کلک کرکے پیسہ کمانے سے متعلق فتوی آپ کی ویب سائٹ پر دیکھا تھا، لیکن وہاں جو چند وجوہات ذکر کی گئی ہیں وہ اس ایڈ (جس کے متعلق میں دریافت کر رہاہوں)میں عموما نہیں پائی جاتی ہیں،  مثلا عورت کی تصویر 100 میں سے95 مرتبہ نہیں ہوتی، بلکہ مرد حضرات کی بھی کم ہی ہوتی ہے اور طریقہ کار یہ ہے کہ: شروع میں کمپنی کو ایک ہزار روپے دیے جاتے ہیں، اس کے بعد یومیہ  ایڈ کی متعینہ تعداد کے اعتبار سے پیسے حاصل کیے جاتے ہیں، بار بار پیسہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، نیز یہ بھی بتادیں کہ کیا اس سے  کماۓ ہوۓ پیسے کا  استعمال کرنا جائزہے ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگرچہ مذکورہ ایڈ  میں تصاویر کم دکھائی جاتی ہیں مگر چونکہ دیگر قباحتیں موجود ہیں ،اس لیے اس طریقہ کار کے مطابق پیسے کمانا جائز نہیں ہے،وہ دیگر خرابیاں یہ ہیں کہ 

1:اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2:جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو، کم ہو یا زیادہ،  اس کا دیکھنا یاتشہیر کرنا جائز نہیں، لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3:  نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جس سے منفعت مقصود ہو، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔

مذکورہ خرابیوں کی بناء پر اس طریقہ پر کام کرکے کمانا شرعا جائز نہیں، اور اس طریقہ پر کمائی کی  گئی ہے  وہ  کسی مستحق زکات شخص کو  ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردی جائے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

[كتاب الإيمان،ج:1، ص:99، ط:دار إحياء التراث العربي]

الدر المختار میں ہے:

"(هي) لغة: اسم للأجرة ‌وهو ‌ما ‌يستحق ‌على ‌عمل ‌الخير ‌ولذا ‌يدعى ‌به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية"

(کتاب الاجارة، ص:569، ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة، ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ...  ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير."

[ج:1، ص:290، ط:دار السلاسل]

 بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد ميں ہے:

"فالحاصل أن التصدق من مال حرام غير مقبول، حتى قال بعض علمائنا: من تصدق بمال حرام يرجو الثواب كفر.قلت: فإن قيل: صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء، فهذا القول منهم يخالف الحديث المذكور، فإن الحديث دال على حرمة التصدق بالمال الخبيث، وقد نص الله تعالى في كتابه: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ} (1) الآية، وقولهم بوجوب التصدق معارض بالحديث والآية، فما وجه التوفيق بينهما؟

قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء, لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام."

 (کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء:ج:1ص:359:ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں