بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے میں آنکھ ، ناک اور کان میں دوا ڈالنے کا حکم


سوال

کیا روزے میں آنکھ یا کان یا ناک میں  دوائی ڈال سکتے ہیں ؟

جواب

روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔

کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔

اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :

"وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا". (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)

"الفقہ الاسلامی وادلتہ "میں ہے:

"مالایفسد الصوم عند الحنفیۃ ... ۳-القطرة أو الاکتحال في العین ولو وجد الصائم الطعم أو الأثر في حلقه؛ لأن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم اکتحل في رمضان و هو صائم". (الفقه الإسلامي و أدلته، ج:۳، ص:۱۷۱۰، ط:دارالفکر)

"بدائع الصنائع "میں ہے:

"وما وصل إلی الجوف أو إلی الدماغ عن المخارق الأصلیة کالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلی الجوف أو إلی الدماغ فسد صومه، أما إذا وصل إلی الجوف فلاشك فیه، لوجود الأکل من حیث الصورة، وکذا إذا وصل إلی الدماغ؛ لأنه له منفذ إلی الجوف، فکان بمنزلة زاویة من زوایا الجوف". (بدائع الصنائع ، ج:۲، ص: ۹۳، ط:دارالکتب العلمیة)

"فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:

"أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا ... قضی فقط  ...".

وفي الرد:

"قلت: ولم یقیدوا الاحتقان والاستعاط والإقطار بالوصول إلی الجوف  لظهوره فیها وإلا فلابد منه حتی لو بقي السعوط في الأنف ولم یصل إلی الرأس لایفطر". (فتاویٰ شامی، ج:۲،ص:۴۰۲، ط:سعید)

"المحیط البرہانی "میں ہے:

"وإذا استعط أو أقطر في أذنه إن کان شیئًا یتعلق به صلاح البدن نحو الدهن والدواء یفسد صومه من غیر کفارة وإن کان شیئًا لایتعلق به صلاح البدن کالماء قال مشایخنا: ینبغي أن لایفسد صومه إلا أنّ محمدًا رحمه اللّٰه تعالٰی لم یفصل بینما یتعلق به صلاح البدن وبینما لایتعلق". (المحیط البرهاني، ج:۲، ص:۳۸۳، ط:دارالکتب العلمیة) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں