بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اینیمیشن کارٹون بنانا اور اس کی ملازمت اور اجرت کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص کارٹون وغیره کی ویڈیو بنانےکی جسے آج کے دور میں اینیمیشن کہتےہیں کی ملازمت کرتا ہے تـو اس کا یہ ملازمت کرنا کیسا ہے؟

جواب

جان دار کی تصویر  اور ویڈیوبنانا خواہ وہ تصویر کارٹون کی ہو اور ڈیجیٹل گرافک ڈیزائن کے ذریعہ بنائی گئی   ہو، حرام اور کبیرہ  گناہ ہے ، احادیث شریفہ میں جاندار کی تصاویر کے بارے میں بہت سی وعیدات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا،  لہذا  اینیمیشن   کارٹون  بنانا، اس کی  ویڈیو بنانا ،  اس کام کی ملازمت کرنا اوراس کی اجرت لینا ،دیناشرعاً جائز نہیں ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»."

(صحيح مسلم: كتاب اللباس والزینۃ، باب: تحريم تصوير صورة الحيوان....، ج3، ص:1670، ط: دار احیاء التراث العربی)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والاستئجار على المعاصي باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(کتاب الاجارات،باب الاجارۃ الفاسدۃ،ج16،ص38،ط:دار المعرفۃ)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى كما مر، [خاتمة]

قال في النهر: جوز في الخلاصة لمن رأى صورة في بيت غيره أن يزيلها؛ وينبغي أن يجب عليه؛ ولو استأجر مصورا فلا أجر له لأن عمله معصية كذا عن محمد."

(کتاب الصلاۃ،ج1،ص650،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں