بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انگریزی بال رکھنے والے والے کے پیچھے تراویح


سوال

انگریزی بال کٹوانے والے کا امامت کرانا کیسا ہے نماز اور تراویح میں؟

جواب

انگریزی بال کہ جس میں سر کے اگلے حصے  کے بال بہ نسبت سر کے پیچھے کے حصے کےبالوں کے بڑے ہوتے ہیں  ، اس طرح بال رکھنا  مکروہ تحریمی ہے؛ کیونکہ حدیث شریف میں اس طرح بال رکھنے سے منع فرمایا گیا اور اس میں یہود ونصاری کے ساتھ مشابہت بھی ہے،  لہذا اگر  تراویح کے  لیے ایسا امام میسر ہو جس کا حلیہ شریعت کے مطابق ہو تو پھر  انگریزی بال رکھنے والےشخص کو امام نہیں بنانا چاہیے،  لیکن اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبع ِسنت  امام دستیاب نہ ہو  اور قریب میں کوئی دوسری مسجد بھی نہ ہو تو   ایسی صورت میں مذکورہ  شخص کی  اقتدا  میں تراویح کی نماز پڑھ لیں ، نماز ہو جائے گی، لیکن ثواب کم ملے گا۔

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة).

قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة".

(بذل المجهود في حل سنن  أبي داود : كتاب الترجل،  باب في الصبي له ذؤابة  (12/ 220)، ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي الهند)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي: عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من تشبه بقوم) : أي: من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: كتاب اللباس (7/ 2782)، ط. دار الفكر، بيروت، الطبعة الأولى: 1422هـ = 2002م)

فتاوی شامی میں ہے:

" قال ط: ويكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع".

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 560)، ط. سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعًا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة؛ فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا، قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق والله أعلم".

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 560)، ط. سعيد)

حلبی کبیر میں ہے:

"لو قدموا فاسقا يأثمون بناء على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لعدم اعتنائه بأمور دينه".

(حلبي كبير: كتاب الصلاة، الفصل الرابع في الأولى بالإمامة (ص:513)، ط. سهيل اكيدمي)

مراقی الفلاح میں ہے:

" وإذا صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة لكن لا ينال ثواب من يصلي خلف إمام تقي."

(مراقي الفلاح: كتاب الصلاة، باب الإمامة،   فصل في الأحق بالإمة  (ص: 115)، ط. المكتبة العصرية، الطبعة  الأولى: 1425 هـ = 2005 م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں