بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو ہی اجرت بنانے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں بعض پھل دار درخت ہیں جس کو اردو میں (چلغوزہ) کہتے ہیں اور پشتو میں (زنڑغوزی) کہتے ہیں، جب پھل  توڑنے کا وقت آجاتا ہے، تو مالک مزدور  کے ساتھ نصف یا ثلث پر مثلا اس طرح اجارہ کرتا ہے کہ آپ ان درختوں کا پھل  میرے لیے توڑ دو جتنا پھل  حاصل ہو جائے تو اس میں نصف تیرا اور نصف میرا ہوگا،اب درج ذیل سوالات مطلوب ہیں :

1:یہ اجارہ جائز ہے یا نہیں؟ كيوں کہ بعض معاصر علماء کرام اس کو جائز کہتے ہیں اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ جہاں عرف ہو جائے اور نزاع اور جھگڑا پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو یہ صحیح ہے۔

2:اگر مذکورہ اجارہ یعنی نصف یا ثلث پر جائز نہیں تو جواز کی صورت کیا ہوگی؟

3:مزدور کا حصہ ادا کرنےکے بعد عشر نکالا جائے یا اس کاحصہ ادا کرنے سے پہلے ؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں اگر پھل کا مالک اجرت اس طرح طے کرے کہ جتنی مقدار پھل توڑنے کے بعد حاصل ہوگی اس میں سے ایک تہائی،یااس کا آدھا بطورِ اجرت دوں گا، تو اس طرح کا معاہدہ کرنے سے یہ اجارہ فاسد ہوجائے گا؛ کیوں کہ حاصل شدہ پھل کی ایک تہائی یا اس کا آدھا حصہ بطور ِاجرت طے کرنا یہ (قفیز طحان) کے حکم میں داخل ہے اور اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے، یعنی:"اجرت من جنس العمل"ہونےکی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے؛ اس لیے کہ جوچیز فی الحال موجود نہیں اس ہی کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے، عرف کی بنیاد پر جواز کا فتوی دینا بھی درست نہیں؛ کیوں کہ عرف  کی بنیاد پر حکم اس وقت  ثابت ہوتاہے جب وہ عرف عام ہو یعنی سب کے ہاں معمول بہ ہو اور اگر کسی خاص علاقہ یا کسی خاص شہر  کے رہنے والے ا س پر عمل کرتے ہوں اور ان کے ہاں عرف بن چکا ہو تو اس عرف کا شرعًا کوئی اعتبار نہیں ۔ 

2-جائز صورت یہ ہے کہ عقد کے شروع میں اجرت کی مقدار اس طرح طے کرے کہ حاصل شدہ چلغوزہ کے ہر ایک من یا  ہر ایک بوری  کے مقابلہ میں اتنی مقدار میں بطور اجرت کے دوں گا، یعنی مطلق چلغوزہ کانام لے لے، حاصل ہونے والے چلغوزہ کی طرف نسبت نہ کرے ، نیز اگر کوئی اور چیز  اجرت کے طور پر مقرر کرتاہے وہ  بھی جائز ہے۔

3- واضح رہے کہ سوال میں مذکورہ معاملہ اجارہ فاسدہ  ہونے کی وجہ سے  ناجائز ہے، اس لیے ایسے معاملات سے اجتناب کرنا لازمی ہے، تاہم درست اور صحیح معاملہ کی صورت میں  ’’عشر‘‘ (دسواں حصہ ) یا نصف عشر (بیسواں حصہ)  زمین کی کل پیداوار كے مالك پر لازم ہوتا ہے، عشریانصف عشر  ادا کرنے سے پہلے قرض، مزدوری کے اخراجات وغیرہ  کی رقم   الگ نہیں کی جاتی ہے۔

تبیین الحقائق مع حاشیۃ شبلی میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولو دفع غزلا لينسجه بنصفه أو استأجره ليحمل طعامه بقفيز منه أو ليخبز له كذا اليوم بدرهم لم يجز)؛ لأنه في الأولى والثانية جعل الأجر بعض ما يخرج من عمله فيصير في معنى قفيز الطحان، وقد نهي عنه - عليه الصلاة والسلام - وهو أن يستأجر ثورا ليطحن له حنطة بقفيز من دقيقه فصار هذا أصلا يعرف به فساد جنسه، والمعنى فيه أن المستأجر عاجز عن تسليم الأجر لأنه بعض ما يخرج من عمل الأجير، والقدرة على التسليم شرط لصحة العقد وهو لا يقدر بنفسه، وإنما يقدر بغيره فلا يعد قادرا ففسد،(قوله فصار هذا أصلا يعرف به إلخ) قال في الهداية، وهذا أصل كبير يعرف به فساد كثير من الإجارات قال الأتقاني أي جعل الأجر بعض ما يخرج من عمل الأجير أصل عظيم يعرف به حكم كثير من الإجارات كما إذا استأجره ليعصر له قفيز سمسم بمن من دهنه، وكذلك إذا دفع أرضه ليغرس شجرا على أن يكون الأرض والشجر بينهما نصفين لم يجز والشجر لرب الأرض وعليه قيمة الشجر وأجر ما عمل كذا في الشامل، وكذا إذا استأجره ليغزل هذا القطن أو هذا الصوف برطل من غزله، وعلى هذا اجتناء القطن بالنصف ودياس الدخن بالنصف وحصاد الحنطة بالنصف ونحو ذلك كله لا يجوز."

[کتاب الإجارة، ج:5، ص:130، ط:دار الكتاب الإسلامي]

الدر مع الرد میں ہے:

"والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز  (قوله والحيلة أن يفرز الأجر أولا) أي ويسلمه إلى الأجير (قوله بلا تعيين)أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر زيلعي."

[کتاب الإجارة، مطلب في الاستئجار على المعصية، ج:6، ص:58، ط:سعيد]

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب يخص القياس والأثر بالعرف العام دون الخاص (قوله كما زعمه مشايخ بلخ) قال في التبيين: ومشايخ بلخ والنسفي يجيزون حمل الطعام ببعض المحمول  ونسج الثوب ببعض المنسوج لتعامل أهل بلادهم بذلك، ومن لم يجوزه قاسه على قفيز الطحان. والقياس يترك بالتعارف. ولئن قلنا: إنه ليس بطريق القياس بل النص يتناوله دلالة فالنص يخص بالتعارف ألا ترى أن الاستصناع ترك القياس فيه، وخص من القواعد الشرعية بالتعامل، ومشايخنا - رحمهم الله - لم يجوزوا هذا التخصيص؛ لأن ذلك تعامل أهل بلدة واحدة وبه لا يخص الأثر، بخلاف الاستصناع فإن التعامل به جرى في كل البلاد، وبمثله يترك القياس ويخص الأثر."

[کتاب الإجارة، مطلب في الاستئجار على المعصية، ج:6، ص:59، ط:سعيد]

وفیہ ایضا:

"(بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر (قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك، درر، قال في الفتح: يعني لايقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة، بل يجب العشر في الكل؛ لأنه عليه الصلاة والسلام حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة، ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحداً وهو العشر دائماً في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلى نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائماً العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعاً فعلمنا أنه لم يعتبر شرعاً عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلاً اهـ وتمامه فيه."

[كتاب الزكوة، باب العشر، ج:2، ص:328، ط:سعيد]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں