بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے جانور کو تبدیل کرنے کا شرعی حکم


سوال

اگر عقیقے میں ایک جانور کے بدلے دوسرے کو ذبح کیا جائے  تو کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عقیقہ مستحب ہے  واجب نہیں ، اس لیے عقیقہ کے لیے جانور  متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا،اسے بدلنا اور اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرکے عقیقہ کرنا درست ہے۔ 

لہذا  صورتِ مسئولہ میں عقیقہ کے لیے کوئی جانور متعین کرکے اس  کے بدلے دوسرا جانور کو عقیقہ کے لیے ذبح کرنا  کرناشرعا  جائز ہے۔

المستدرك على الصحيحينمیں ہے:

"عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: ‌نذرت ‌امرأة ‌من ‌آل ‌عبد ‌الرحمن ‌بن ‌أبي ‌بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزورا، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولا ولا يكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع فإن لم يكن ففي أربعة عشر فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ."

[كتاب الذبائح، ج:4، ص:266، ط:دار الكتب  العلمية]

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا."

[كتاب الأضحية، خاتمة، ج:6، ص:336، ط:سعيد]

امدادا لفتاوی میں ہے:

"عقیقہ کی نیت سے جو جانور خریدا گیاہے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، جس کام میں چاہیں لے آویں،(لأن الشراء بنية العقيقة وإن كان بمعنى النذر ولكن يشترط لانعقاد النذر أن يكون المنذور عبادة مقصودة، قال في الدر:‌(وكان ‌من ‌جنسه ‌واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة)، وقال في الشامي: الضمير راجع للنذر، بمعنى المنذور لا للواجب) إلى أن قال:فهذا صريح في أن الشرط كون المنذور نفسه عبادة مقصودة لا ما كان من جنسه."

(کتاب الصید والذبائح والاضحیۃ العقیقۃ والختان،ج:۴ص:۲۰۷ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں