بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انگریزی میں مضامین / آرٹیکل لکھنے کے لئے دھوکہ دے کر کام حاصل کرنا


سوال

نوکری کے حوالے سے سوال ہے کہ  احقر ایک کمپنی میں ملازم ہے جو باہر ممالک کے گاہکوں  کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور کانٹینٹ ڈیویلپمنٹ (content development) کی سروسز دیتی ہے۔  احقر کا کام ہے کہ  انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل لکھوں جو مختلف مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں، گاہک اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنے کے لیے آرٹیکل لکھواتے ہیں۔

کمپنی کراچی میں ہے اور اس کی ویب سائٹ پر پتہ بھی کراچی ہی کا لکھا ہے، کمپنی کی دو اور ویب سائٹس ہیں جن پر وہ آرڈرز لیتی ہے، یہ دونوں ویب سائٹس کمپنی کے دو برانڈز (brands) یا سروسز سمجھ لیں، یہ دونوں الگ الگ ناموں سے بنائی گئی ہیں مگر ان پر کہیں کا پتہ نہیں لکھا، اور اس طرح سے بنائی گئی ہیں  کہ دیکھنے والے کو لگے کہ امریکہ کی ویب سائٹ ہے اور امریکہ کی کمپنی ہے، رابطہ کرنے کا نمبر امریکہ کادیا ہوا ہے۔ ایک چھوٹا سا آفس امریکہ میں ہے جہاں چھوٹے موٹے کام جیسے ٹیکس وغیرہ دیکھا جاتا ہے مگر آرڈرز پر کام  یہیں کراچی سے ہوتا ہے۔

کراچی میں ہی ایک سیلز کی ٹیم ہے جو امریکہ اور برطانیہ  کے انگریز لوگوں سے فون پر بالکل انہیں کے لہجے میں بات کرکے اوریہ کہہ کر کہ امریکہ میں ہیں، آرڈرز لیتی ہے، تاکہ  گاہک کو اطمینان رہے کہ آرٹیکل لکھنے والے امریکن ہیں تو انگریزی کا معیار اچھا ہوگا۔

احقر انہیں آرڈرز پہ آرٹیکل لکھتا ہے مگر احقر  کا گاہکوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا، کمپنی کی طرف سے جو مضمون ملتا ہے اس پر میں لکھتا ہوں، احقر آرٹیکل لکھنے کے بعد کمپنی کو دیتا ہے، کمپنی کا ایک سینئر آدمی اس کی تصحیح کرتا ہے پھر وہ گاہک کو دیتا ہے۔

کمپنی ایسے لوگوں کو رکھتی ہے جو انگریزی میں بہت اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے ہیں، باقاعدہ انگریزی کا مشکل امتحان لیتی ہے پھر رکھتی ہے، اور احقر کا اور دوسرے رائٹرز کا کام انگریز گاہکوں کے معیار اور امید کے مطابق ہوتا ہے، اگر کچھ کمی رہ جائے تو وہ کمپنی کو بتاتا ہے کہ یہ کمی ہے اور کمپنی اگر صحیح سمجھے تو ہم سے اس کمی کو پورا کرواتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ کمپنی انگریز لوگوں کو دھوکہ دے کر رائٹنگ (writing) کے آرڈرز لیتی ہے، مگر احقر کا گاہکوں سے براہِ راست کوئی رابطہ نہیں ہوتا، تو دھوکہ دینے میں احقر کا کوئی حصہ نہیں، اور کام کمپنی کی طرف سے ملتا ہے اس کو احقر کرکے دیتا ہے، اور احقر کا کام انگریز گاہکوں کے معیار اور امید کے مطابق  بھی ہوتا ہے۔

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ  کے بارے میں کہ احقر کے لیے بحیثیت ملازم اس نوکری کا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کام کے عوض ملنے والی تنخواہ حلال ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ نے دھوکہ دہی سے سختی سے منع کیا ہے، اور دھوکہ دہی کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، دھوکہ کسی بھی نوعیت کا ہو، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا اپنے گاہک کو دھوکہ دینا ناجائز اور غلط ہے، البتہ کمپنی کے ملازمین جو آرٹیکل لکھتے ہیں اگر وہ گاہک کے معیار اور توقع کے مطابق ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کمپنی اور اُس کے ملازمین کے لیے اس کا عوض اور اجرت لینا حلال ہے، لیکن جھوٹ اور دھوکہ  کا گناہ اپنی جگہ برقرار ہے، کمپنی کے ذمہ داروں کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، باقی سائل پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ سائل کو جھوٹ اور دھوکہ سے پاک کسی ادارہ میں  جیسے ہی ملازمت ملے تو اس جگہ ملازمت ترک کردے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا ‌كذب ‌العبد تباعد عنه الملك ميلا من نتن ما جاء به."

(أبواب البر والصلة، ‌‌باب ما جاء في الصدق والكذب، ٤/ ٣٤٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

 وفيه أيضاً:

 "عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الغادر ينصب له لواء يوم القيامة."

(أبواب السير، ‌‌باب ما جاء أن لكل غادر لواء يوم القيامة،  ٤/ ٣٤٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کہتے   ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے دن عہد شکن (کی  فضیحت ورسوائی) کے لیے ایک نشان کھڑا کیا جائے گا"۔

(توضیحات / ج٥/ ص: ٦١٨)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ‌حمل ‌علينا ‌السلاح فليس منا  ومن غشنا فليس منا."

(كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا"، ١/ ٦٩، ط: دار الجيل)

ترجمہ:" حضرت  ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:" جس نے ہمارے اوپر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں،اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں"۔

(تحفۃ المنعم / ج: ١ /ص: ٤٨١ / ط: مکتبہ اویس)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں