بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انگوٹھی کا استعمال سنت ہے یا نہیں؟


سوال

انگوٹی پہننا سنت ہے یا نہیں؟

جواب

رسول اللہ ﷺ نے ابتدا  میں  انگھوٹھی  نہیں بنوائی تھی اور نہ ہی اس کا استعمال فرمایا ،مگر جب معلو م ہوا کہ عجم کے بادشاہ بغیر مہر کے خطوط پر اعتماد نہیں کرتے اور  آپ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے عجم کے بادشاہوں کی طرف خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو سنہ   چھ  یا   سات ہجری میں آپ ﷺ نے  مہر لگانے کی غرض سے انگوٹھی بنوائی ،اسی وجہ سے فقہاءِ  کرام فرماتے ہیں کہ بادشاہ ،قاضی ،متولی وغیرہ غرض جن حضرات کو مہر کی ضرورت پڑتی ہے ،ان کے لیے تو انگوٹھی کا استعمال سنت ہے،  اور  ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے جائز تو ہے،  لیکن استعمال نہ کرنا افضل ہے ۔

نیز مَردوں کے لیے چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے، اور چاندی کی انگوٹھی میں بھی یہ شرط ہے کہ ایک  مثقال(ساڑھے چار ماشہ یعنی 4 گرام، 374 ملی گرام (4.374 gm)سے کم وزن کی ہو۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(وترك التختم لغير السلطان والقاضي) وذي حاجة إليه كمتول (أفضل)

(قوله: وترك التختم إلخ) أشار إلى أن التختم سنة لمن يحتاج إليه كما في الاختيار."

(رد المحتار6/ 361ط:سعيد)

وفيه أيضًا:

"(قوله: فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب»، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلًا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا» " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام، فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه -محركًا-: النحاس الأصفر، قاموسَ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء." (6/359، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209201700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں