بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انگوٹھی،گھڑی،عقیق، فیروز، کڑا، ربن، اور مختلف قسم کی زنجیروں کے احکام


سوال

 ایک مسلمان مرد ہونے کے  ناتے میں عام طور پر کس قسم کے زیورات پہن سکتا ہوں؟مثال کے طور پر ہاتھ کی گھڑی، انگوٹھی، کڑا، ربن، زنجیر، پتھر فیروزہ، عقیق وغیرہ اور چاندی کی چڑھائی ہوئی انگوٹھیاں اصل میں تانبے یا سٹیل کی ہیں، سٹیل کی زنجیروں کے ساتھ انگوٹھیاں یا پرس وولٹ، اور اسٹیل اور پلاسٹک کی چابیوں کی زنجیریں، اور پلاسٹک کی فینسی انگوٹھیاں،سٹیل کی زنجیروں کے ساتھ جدید اور ٹچ کلائی گھڑی، برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں؟

جواب

سوال میں منتشر اجزاء کا جواب ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

مرد کے لیے انگوٹھی پہننے کا حکم:

زیورات میں مرد کے لیے صرف چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے،بشرط یہ کہ اس کا وزن ایک مثقال (ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) سے کم  ہو،اور وہ مردانہ طرز پر ڈیزائن کی گئی ہو،اس کے علاوہ کسی اوردھات ( مثلاًسونا،لوہا،پیتل،تانبا،پلاسٹک )کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں،البتہ اگر ان پر  چاندی کا پانی چڑھا ہو تو ان کا پہننا بھی جائز ہے ،یہی حکم آرٹی فیشل(فینسی)انگوٹھیوں کا ہے،کہ اگر ان پر چاندی کا پانی چڑھا ہوتو پہننا جائز ہے،ورنہ نہیں۔(1)

البتہ ضرورت كے علاوه انگوٹھی نہ پہننا افضل ہے۔

گھڑی پہننے کا حکم:

سونے اور چاندی کے علاوہ  چمڑے یا کسی بھی دھات کی گھڑی ضرورت کے لیے پہننا جائز ہے،بطورِ زیور ،نمائش یا برتری ظاہر کرنے کے لیے پہننا جائز نہیں،گھڑی کی زنجیر اگر گھڑی کو باندھنے کے لیے ہو تو جائز ہے، بطورِ زیور و نمائش  پہننا درست نہیں ۔(2)

کڑا، ربن ،اور زنجیروں کا حکم:

یہ چیزیں نہ پہنی جائیں،اور اگر حصول نفع یا دفع ضرر  کے اعتقاد سے   پہنی جائیں تو ممنوع ہیں؛ کیوں کہ اس میں بد عقیدگی کا اندیشہ ہے،بلکہ بعض فقہاء نے اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے۔(3)

پرس ،وولٹ ،پلاسٹک اور اسٹیل  کی چابیوں کی زنجیروں کا حکم:

ان چیزوں کا استعمال ضرورتاً مباح ہے۔(4)

یاقوت  اور عقیق وغیرہ  کا حکم:

عقیق، فیروز، یاقوت وغیرہ سے متعلق کسی قسم کا کوئی غلط عقیدہ نہ ہوتو  ان کو چاندی کے حلقے میں    جڑ کر پہننےمیں کوئی حرج نہیں،البتہ ان پتھروں کےمتعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں پتھر میری زندگی پراچھے اثرات ڈالتا ہے یا روزی میں برکت ہوتی ہے،غرض یہ کہ ان بے جان پتھروں کی تاثیر کے اعتقاد سے پہننا ناجا ئز اورحرام ہے۔(5)

(1)لما في الفتاوي الهندية:

"وإنما يجوز التختم بالفضة إذا كان على هيئة خاتم الرجال أما إذا كان على هيئة خاتم النساء بأن يكون له فصان أو ثلاثة يكره استعماله للرجال، كذا في الخلاصة ويكره للرجال التختم بما سوى الفضة، كذا في الينابيع.....والتختم بالذهب حرام في الصحيح، كذا في الوجيز للكردري.......وفي الخجندي التختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجال والنساء جميعا،.......ولا بأس بأن يتخذ خاتم حديد قد لوي عليه فضة أو ألبس بفضة حتى لا يرى كذا في المحيط.......ذكر في الجامع الصغير وينبغي أن تكون فضة الخاتم المثقال، ولا يزاد عليه وقيل: لا يبلغ به المثقال وبه ورد الأثر، كذا في المحيط......إنما يسن التختم بالفضة ممن يحتاج إلى الختم كسلطان أو قاض أو نحوه وعند عدم الحاجة الترك أفضل، كذا في التمرتاشي."

(کتاب الكراهية،باب في استعمال الذهب والفضة،ج:5،ص:335،ط:دار الفكر)

لما في الصحيح للبخاري:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌المتشبهين ‌من ‌الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال".

(کتاب اللباس ،باب المتشبهون باالنساءوالمتشابهات باالرجال،159/7،ط: بالمطبعة الأميرية )

لمافي الصحیح للمسلم :

"حدثنا خلف بن هشام والمقدمى وأبو كامل وقتيبة بن سعيد كلهم عن حماد - قال خلف حدثنا حماد بن زيد - عن عاصم الأحول عن عبد الله بن سرجس قال رأيت الأصلع - يعنى عمر بن الخطاب - يقبل الحجر ويقول والله إنى لأقبلك وإنى أعلم أنك حجر وأنك لا تضر ولا تنفع ولولا أنى رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبلك ما قبلتك."

( كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف،925/2،ط:مکتبه عیسیٰ البابي)

و لما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً، (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ... (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال".

(كتاب الحظر والاباحة،فصل في اللبس، ج:۶، ص: ۳۶۳)

(2)لما في الفتاوى الهندية:

"ولا بأس بأن يلبس الصبي اللؤلؤ، وكذا البالغ".

(کتاب الكراهية،باب في استعمال الذهب والفضة،ج:5،ص:335،ط:دار الفكر)

(3)لما في رد المحتار:

' ثم رتیمة... هي خیط کان یربط في العنق أو في الید في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم علي زعمهم هو منه عنه وذکر في حدود الیمان أنه کفر '

(كتاب الحظر والاباحة،فصل في اللبس، ج:۶، ص: ۳۶۳)

(4)لما في الفتاوى الهندية:

"ولا بأس بآنية العقيق والبلور والزجاج والزبرجد والرصاص، كذا في خزانة المفتين".

(کتاب الكراهية،باب في استعمال الذهب والفضة،ج:5،ص:335،ط:دار الفكر)

(5) لما في الشامية:

"(والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،360/6،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں