بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انڈے اسٹور کرکے ریٹ بڑھنے پر فروخت کرنا


سوال

میرا پولٹری فارم ہے، آج کل انڈے ڈیمانڈ کم ہونے کی وجہ سے انڈا ریٹ سے آٹھ سو سے ہزار روپے پیٹی کم سیل ہوتا ہے، اس لیے کچھ فارمر نقصان سے بچنے کے لیے انڈا کولڈ سٹور میں رکھ دیتے ہیں،  ریٹ جب ٹھیک هو جاتے ہیں تو سیل کر دیتے ہیں۔ کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟

جواب

ایسی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی جوضروریات میں شامل ہوں اورذخیرہ اندوزی بھی ایسی ہوکہ جس سے معاشرہ کے افراد تکلیف میں آجاتے ہوں،دام مصنوعی طور پر بڑھ جاتے ہوں یا دام بڑھنے کی صور ت میں ان اشیاء کی فروخت بند کردی جاتی ہو، حالاں کہ لوگوں کو اس کی  طلب  ہو، اسلام میں ایسی ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے ،احادیث میں اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔

البتہ اگرمعاشرے میں اس چیزکی ضرورت پوری ہورہی ہو اورمقصود لوگوں کوپریشانی میں مبتلا کرکے زائد نفع خوری نہ ہو، بلکہ صرف اس شے کو زائدمقدارمیں اسٹاک کرکے رکھاجائے، سیزن کے علاوہ بھی لوگوں کی طلب پراس شے کو روکانہ جائے اورپھرسیزن میں اگرقیمت بڑھ جائے توعام ایام کی قیمت کے مقابلے میں کچھ زائدقیمت پر فروخت درست ہے۔

آپ نے جو صورت لکھی ہے کہ موجودہ گرمی کے موسم میں انڈے قیمت کم ہونے کی وجہ سے اسٹاک کرکے رکھ دیے جائیں اور بعد میں جب قیمت معمول کے مطابق آجائے تو پھر فروخت کیے جائیں، یہ صورت درست ہے، یہ ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں۔

البتہ انڈوں کو طویل عرصہ  اسٹور کرنے سے اگر وہ صحت کے لیے مضر ہوجائیں تو اس سے اجتناب کیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 398):
"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.
(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغةً: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعاً: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوماً لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس». وفي رواية: «فقد برئ من الله وبرئ الله منه». قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى: «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لايقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً». الصرف: النفل، والعدل الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل: شهراً. وقيل: أكثر. وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم؛ لحصوله. وإن قلت: المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى! در منتقى، مزيداً، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.
(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس، وقال في الفصفصة: بالكسر هو نبات فارسيته إسفست، تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية، قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيراً، هداية".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں