بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اندھیرے میں طلاق دی اور دونوں بیویوں میں سے کوئی اظہار نہیں کر رہی کہ کس کو دی تھی


سوال

ایک آدمی کی دو بیویاں ہیں ،اس نے رات کے اندیرھے میں کسی ایک سے پانی مانگا اور اس نے دیر کردی،شوہر کو غصہ آیا اور اس نے اس کو تین طلاقیں دے دیں ۔صبح کو نہ کوئی بیوی اقرار کرتی  ہے کہ وہ  میں تھی اور نہ شوہر کو معلوم  ہے کہ کون سی تھی؟ اب شرعًا  کیسے متعین کیا  جائے  کہ فلاں عورت تھی ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب تک دونوں میں سے کوئی ایک اقرار نہ کرلے کہ اسےہی طلاق دی تھی، دونوں کے قریب نہ جائے؛  اس لیے کہ ان میں سے ایک اس پر یقینی طور پر حرام ہوچکی ہے۔ نیز دونوں کا نفقہ ادا کرتا رہے؛ کیوں کہ  بیوی اور معتدہ،  دونوں کا نفقہ  لازم ہے۔

اگر مذکورہ دونوں بیویوں میں سے کوئی بھی اقرار نہ کرے تو مذکورہ شخص دونوں کو ایک ایک  طلاق دے، پھر عدت گزر جانے کے بعد جب  دونوں کا  دوسرا نکاح اور  رخصتی ہوجائے، پھر  اسے  طلاق ہوجائے  یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے، تو اس سے شادی کرے، اس کے علاوہ  ان میں  سے کسی سے شادی نہ کرے۔ اور اگر کوئی شادی  نہ کرے تو جب تک دونوں میں سے کوئی ایک طلاق کا اقرار نہ کرلے، کسی ایک سے  شادی نہ کرے۔

تاہم دونوں کو یہ بھی سمجھایا جائے کہ یہ حرام اور حلال کا معاملہ ہے، نیز اپنی وجہ سے  دوسرے کو مشکل میں ڈالنا بھی گناہ ہے؛  لہذا  جس کو طلاق دی تھی، وہ اس کا اظہار کردے۔

اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ صرف پانی نہ لانے پر تین طلاق  دینابھی   شوہر کی طرف سے ناروا عمل  تھا، شریعت میں اولًا طلاق کو ہی پسند نہیں کیا گیا، پھر تین طلاق ایک ساتھ دینے کو  دینی احکام کے ساتھ مذاق قرار دیا گیا ہے، حکم یہ ہے کہ  طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو پاکی کے دنوں میں ایک طلاق دے دی جائے، جب تین ماہواریاں گزر جائیں تو عورت خود ہی نکاح سے بائنہ ہوجائے گی۔

الفتاوى الهندية (1 / 364):

"و لو طلق إحدى نسائه الأربع ثلاثًا ثم اشتبهت وأنكرت كل واحدة أن تكون هي المطلقة لا يقرب واحدة منهن لأنه حرمت عليه إحداهن ويجوز أن تكون كل واحدة وقد قال أصحابنا رحمهم الله تعالى كل ما لا يباح عند الضرورة لا يجوز التحري فيه والفروج من هذا الباب ولهذا قالوا إذا اختلطت الميتة بالمذبوحة أنه يتحرى لأن الميتة تباح عند الضرورة وإن استعدين عليه إلى الحاكم في النفقة والجماع أعدى عليه وحبسه حتى يبين التي طلقها منهن وتلزمه نفقتهن وينبغي أن يطلق كل واحدة طلقة واحدة فإذا تزوجن بغيره جاز له التزوج بهن وإن لم يتزوجن فالأفضل أن لايتزوج بواحدة.

ولو تزوج بالثلاث صح نكاحهن وتعينت الرابعة للطلاق وكذا قالوا في الوطء لا يقربهن احتياطا فإن قربالثلاث تعينت الرابعة للطلاق وليس له أن يتزوج بالكل قبل أن يتزوجن بزوج آخر فإن تزوجت واحدة منهن بزوج ودخل بها ثم تزوج الكل ذكر في الجامع أنه لا يجوز نكاح الكل ولو ادعت كل واحدة أنها المطلقة ثلاثا يحلف الزوج فإن نكل وقع على كل واحدة الثلاث وإن حلف لهن فالحكم كما قلنا قبل اليمين كذا في الاختيار شرح المختار. وكذا إذا كانتا اثنتين فتزوج إحداهما تعينت الأخرى للطلاق هذا إذا كان الطلاق ثلاثا فإن كان بائنا ينكحهن جميعا نكاحا جديدا ولا يحتاج إلى الطلاق وإن كان رجعيا يراجعهن جميعا وإذا كان الطلاق ثلاثا فماتت واحدة منهن قبل البيان فالأحسن أن لا يطأ الباقيات إلا بعد بيان المطلقة وإن وطئهن قبل البيان جاز كذا في البدائع."

الاختيار لتعليل المختار (3 / 146):

"و لو طلق إحدى نسائه الأربع ثلاثا ثم اشتبهت وأنكرت كل واحدة أن تكون هي المطلقة لا يقرب واحدة منهن لأنه حرمت عليه إحداهن، ويجوز أن تكون كل واحدة. وقد قال أصحابنا: كل ما يباح عند الضرورة لا يجوز التحري فيه والفروج من هذا الباب، ولهذا قالوا: إذا اختلطت الميتة بالمذبوحة إنه يتحرى لأن الميتة تباح عند الضرورة.

و إن استعدين عليه إلى الحاكم في النفقة والجماع أعدى عليه وحبسه حتى يبين التي طلق منهن، ويلزمه نفقتهن لأن لكل واحدة منهن حق المطالبة بأحكام النكاح، فكان على الحاكم إلزامه إيفاء للحق، ويقضي عليه بنفقتهن لأنها تجب للمعتدة وللزوجة.

وينبغي أن يطلق كل واحدة طلقة واحدة، فإذا تزوجن بغيره جاز له التزوج بهن، فإن لم يتزوجن فالأفضل أن لا يتزوج بواحدة، ولو تزوج بالثلاث صح نكاحهن وتعينت الرابعة للطلاق، وليس له أن يتزوج بالكل قبل أن يتزوجن بزوج آخر، فإن تزوجت واحدة منهن بزوج ودخل بها ثم تزوج الكل ذكر في الجامع أنه يجوز نكاح الكل، لأن الظاهر من حال المتزوجة إنما هي المطلقة ثلاثا حيث أقدمت على النكاح للتحليل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں