بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انبیاء کرام علیہم السلام سے متعلق ایک جملہ کی تحقیق


سوال

میں ایک جملہ کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں،  میں نے یہ جملہ کہہ دیا کہ  ’’تمام انبیاء علیہم السلام اور اہلِ ایمان کافر ہیں طاغوت سے،  یعنی اس سے انکار کرتے ہیں‘‘،  کیا مجھ  پر تجدیدِ ایمان لازم آئے  گی؟

جواب

بصورتِ مسئولہ جب سوال میں ذکر کردہ لفظ  ’’کافر‘‘  سے لغوی معنی یعنی "انکار "  کا معنی مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام طاغوت   (شیطان) کے منکر  ہیں تو یہ بات تو فی نفسہ بالکل درست ہے، اور اس میں کسی قسم کی بے ایمانی نہیں ہے، نیز قرآنِ کریم میں بھی یہی الفاظ  استعمال کیے گئے ہیں، جیسے کہ سورہ بقرہ میں ہے:

"لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ  ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ "

 ترجمہ: "دین میں زبردستی (کا، فی نفسہ کوئی موقع) نہیں (کیوں کہ ) ہدایت یقینًا گم راہی سے ممتاز ہوچکی ہے، سو جو شخص شیطان سے بداعتقاد ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوش عتقاد ہو (یعنی اسلام قبول کرلے) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کو کسی طرح شکستگی نہیں (ہوسکتی) اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں خوب جاننے والے ہیں۔ "

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ: 256، ترجمہ:بیان القرآن للتھانویؒ)

تاہم ایسے کلمات  جو شبہ میں ڈالنے والے ہوں،  ان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں