انبیاء کرام علیہم السلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے خاکے شائع کرنے کا کیا حکم ہے؟بعض لوگ انبیاء کرام علیہم السلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے بعض مقدس شخصیات کے تخیلاتی فوٹو شائع کرتے ہیں، جن میں ان کو مختلف کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، جس کے کچھ نمونے ساتھ لف ہیں، کسی تصوراتی یا اس کے علاوہ کسی غیر نبی یا غیر صحابی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یایہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں یا یہ حضرت علی المرتضیٰ ، یا حضرت حسن، یاحضرت حسین، یاحضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، کیا یہ گستاخی اور توہین کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟اگر شریعتِ مطہر ہ میں یہ توہین اور گستاخی ہے تو شرعا ًاس جرم کے مرتکب کے لیے کیا حکم اور کیا سزا ہے؟
انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مقدس اور قابلِ احترام ہستیاں ہیں،اس لیے ایسا کوئی بھی عمل یا حرکت جس کی وجہ سے ان مقدس و معزز ہستیوں کی شان میں کمی یا بے ادبی ہوتی ہو،قطعاجائز نہیں۔ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی ادنیٰ سے ادنیٰ توہین وتنقیص موجبِ کفر ہے۔ یہاں تک کہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص حضور علیہ السلام کےبال مبارک میں سے کسی ایک بال میں بھی کوئی عیب لگائے تو وہ کافر ہوجائے گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں کسی بھی جاندار کی تصویر یا خاکہ بنانا ناجائز اور حرام ہے،بالخصوص انبیاء کرام علیہم السلام و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس وپاکیزہ ہستیوں کی فرضی تصاویر وتخیلاتی خاکے بنانا سخت حرام ہے۔ ایسی مقدس وپاکیزہ ہستیوں کی تخیلاتی تصاویر بناکر انہیں شائع کرنایا ان کی سیرت و کردار کو فرضی تصویروں میں دکھانااور عام گناہ گار انسانوں کو انبیاء معصومین کے طور پر پیش کرناانتہائی درجے کی بے ادبی اور توہین ہے،لہذااگر بنانے والے نے انبیاء علیہم السلام کی بے حرمتی اور توہین کے قصد سے یہ حرکت کی تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا،شادی شدہ ہونے کی صورت میں نکاح بھی ٹوٹ گیا،ایسے شخص پر لازم ہے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح کرے۔اوراگر وہ اپنی اس حرکت سے توبہ نہیں کرتا اور باز نہیں آتا تو حکومتِ وقت کی ذمہ داری بنتی ہے ایسے شخص کو کیفر کردار تک پہنچائےاور عبرتناک سزا دے۔
تاہم اگر بنانے والے کا مقصد توہین و بے حرمتی نہ ہو(گو کہ پھر بھی اس کا یہ عمل سخت حرام ہے)تو بھی اس نے بہت بڑے جرم و گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔اس پرلازم ہے کہ اپنی اس حرکت پر خوب توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسی حرکت سے باز رہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
5606 - "حدثنا الحميدي: حدثنا سفيان: حدثنا الأعمش، عن مسلم قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون".
(كتاب اللباس، باب: عذاب المصورين يوم القيامة، ج:5، ص:2220، ط: دار ابن كثير)
ترجمہ:”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں جن کو سب سے سخت عذاب دیا جائے گاوہ تصویر بنانے والے ہیں“۔(مظاہر حق)
فتاوی شامی میں ہے:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا".
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:1، ص:647، ط: سعيد)
وفيه ايضاً:
"(وكل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا) جماعة من تكررت ردته على ما مر و (الكافر بسب نبي) من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا...لكن صرح في آخر الشفاء بأن حكمه كالمرتد،ومفاده قبول التوبة كما لا يخفى..وقد صرح في النتف ومعين الحكام وشرح الطحاوي وحاوي الزاهدي وغيرها بأن حكمه كالمرتد ولفظ النتف من سب الرسول صلى الله عليه وسلم فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويفعل به ما يفعل بالمرتد انتهى.
(قوله الكافر بسب نبي) في بعض النسخ والكافر بواو العطف وهو المناسب (قوله فإنه يقتل حدا) يعني أن جزاءه القتل على وجه كونه حدا، ولذا عطف عليه قوله ولا تقبل توبته لأن الحد لا يسقط بالتوبة فهو عطف تفسير؛ وأفاد أنه حكم الدنيا، أما عند الله تعالى فهي مقبولة كما في البحر. ثم اعلم أن هذا ذكره الشارح مجاراة لصاحب الدرر والبزازية، وإلا فسيذكر خلافه ويأتي تحقيقه (قوله مطلقا) أي سواء جاء تائبا بنفسه أو شهد عليه بذلك بحر...
وقال ابن سحنون المالكي: أجمع المسلمون أن شاتمه كافر، وحكمه القتل، ومن شك في عذابه وكفره كفر. اهـ. قلت: وهذه العبارة مذكورة في الشفاء للقاضي عياض المالكي نقلها عنه البزازي وأخطأ في فهمها، لأن المراد بها ما قبل التوبة، وإلا لزم تكفير كثير من الأئمة المجتهدين القائلين بقبول توبته وسقوط القتل بها عنه.على أن من قال يقتل وإن تاب يقول إنه إذا تاب لا يعذب في الآخرة كما صرحوا به، وقدمناه آنفا، فعلم أن المراد ما قلناه قطعا
(قوله لكن صرح في آخر الشفاء إلخ) هذا استدراك على ما في فتاوى المصنف. وعبارة الشفاء هكذا: قال أبو بكر بن المنذر: أجمع عوام أهل العلم على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم يقتل، وممن قال ذلك مالك بن أنس والليث وأحمد وإسحاق، وهو مذهب الشافعي، وهو مقتضى قول أبي بكر - رضي الله تعالى عنه -، ولا تقبل توبته عند هؤلاء، وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه والثوري وأهل الكوفة والأوزاعي في المسلم، لكنهم قالوا هي ردة. وروى مثله الوليد بن مسلم عن مالك. وروى الطبراني مثله عن أبي حنيفة وأصحابه فيمن ينقصه صلى الله عليه وسلم أو برئ منه أو كذبه. اهـ.وحاصله أنه نقل الإجماع على كفر الساب، ثم نقل عن مالك ومن ذكر بعده أنه لا تقبل توبته. فعلم أن المراد من نقل الإجماع على قتله قبل التوبة. ثم قال: وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه إلخ أي قال إنه يقتل يعني قبل التوبة لا مطلقا."
(کتاب الجہاد، باب المرتد، ج:4، ص:231۔233، ط:سعید)
فتح باب العناية بشرح النقاية ميں هے:
"ويكفر من وصف الله تعالى بما لا يليق به تعالى وتقدَّس....او عاب النبي صلى الله عليه وسلم ولو بشعرة من شعراته، لأنه استخفاف بمن كَمَّله الله من كل وجه."
(كتاب الجهاد، احكام المرتد، ج:3، ص:308، ط:دار الأرقم بن أبي الأرقم)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
”حضرت رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصویر بنانا تو براہ راست رسول مقبول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بغاوت اور کھلا مقابلہ کرنا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہذا آپ ہی کی تصویر بنائیں گے (معاذ اللہ )، یہ صورت نہایت خطرناک ہے۔ نیز اپنے ذہن میں صورت مبارکہ کو تجویز کر کے تصویر بنا کر آپ کی طرف منسوب کرنا کہ یہ آپ کی صورت مبارکہ ہے، بہتان عظیم ہے جس کی سزا جہنم ہے ۔“
(باب الصورۃ والملاھی، ج:19، ص:493، ط:جامعہ فاروقیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100583
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن