بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انبیاء کرام علیہم السلام کے کرداروں پر مبنی فلمیں بنانے اور دیکھنے کا حکم


سوال

اس وقت انبیائے کرام کے کردار اور زندگی پر مبنی ڈرامے سیریلز بعض ٹی وی چینلز اور یوٹیوب پر چل رہے ہیں، جن میں اکثر ان کے زندگی کے سچے واقعات دکھائے گئے ہیں، تاہم ان میں بعض ایسے واقعات بھی دکھائے گئے ہیں، جن کا قرآن و اسلامی کتب میں ذکر موجود نہیں، اگرچہ ان واقعات میں اسلام کے خلاف کوئی ایسا مواد بھی نہیں ہیں ، تاہم اداکاروں کو انبیائے کرام کا کردار ادا کرنا اور انہیں صرف اور صرف اس لیے دیکھنا کہ ان سے معلومات حاصل کی جائیں اور انبیائے کرام کے زندگی ، واقعات اور دیگر سے متعلق خود کو آگاہ کیا جائیں کیا ایسی فلمیں یا ڈرامے سیریلز دیکھنا حرام تو نہیں ہے کہ جو صرف اور صرف اپنے معلومات اور انبیائے کرام کی زندگی سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ہوں؟ بعض اوقات پڑھنے سے وہ واقعات انسان اتنے اچھے طریقے سے ذہن نشین نہیں کرسکتا جتنا وہ واقعہ یا قصہ ویڈیو کی صورت میں دیکھ کر یاد رہتا ہے ۔

جواب

شریعتِ مطہرہ میں جان دار کی تصویر بنانامطلقاً حرام ہے خواہ وہ تصویر (فوٹو) کی صورت میں ہو یا ویڈیو اور فلم کی شکل میں، ، کیوں کہ  ویڈیو یا فلم بھی تصویر سے بنتی ہے،اور یہ بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے اور احادیث شریفہ میں جاندار کی تصاویر کے بارے میں بہت سی وعیدات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جس گھر میں کسی جاندار کی تصویر ہو رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا،  لہذا  جان دار  کی تصویر پر مشتمل ویڈیو اور فلم بنانا اور ایسی ویدیوز اور فلموں کو دیکھنا جائز نہیں ہے، بالخصوص جب وہ تصاویر    انبیاء کرام  علیھم السلام  جیسی مقدس اور معزز ہستیوں کی طرف منسوب  ہوں تو ان کی حرمت میں مزید شدت آجاتی ہے، کیوں کہ  انبیاء کرام علیہم السلام مسلمانوں کے ہاں معصوم اور گناہوں سے پاک ہستیاں ہیں،انبیاء کرام علیہم السلام یا ان میں سے کسی ایک نبی علیہ السلام کے بارے میں فلمیں بنوانا اور عام گناہ گار انسانوں کو انبیاء کرام جیسی معصوم اور مقدس ہستیوں کے طور پر پیش کرنا اور اللہ تعالیٰ کے معصوم اور مقدس انبیاء کرام علیہم السلام کو میوزک اور مرد و زن کے اختلاط پر مشتمل مناظر میں دکھانا، انبیاء کرام کی کھلی توہین و تنقیص ہے،لہٰذا اس طرح کی فلمیں بنانا اور ایسی فلموں کو دیکھنا بالکل قطعی ناجائز اور حرام ہے اور   یہ ناجائز عمل خواہ نیک نیتی (یعنی دین پھیلانے کی غرض)  ہی سے کیوں نہ ہو، بہرصورت ناجائز ہی رہے گا۔ 

واضح  رہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے اوامر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی طرف بلانا اور ان کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار کرنا امت کے مسلمانوں پر (فرض کفایہ کے طور پر) ضروری ہے، تاہم یہ ضرورت اور لزوم استطاعت اور  قدرت کے ساتھ مقید ہےاور   ہر مسلمان بلکہ ہر عالم شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق  حسب استطاعت تبلیغ ، اصلاح  اور شبہات کا دفع کرنے کامکلف ہے ، خود کو معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرکے دین کی دعوت یا شکوک وشبہات دفع کرنے  کا مکلف نہیں، اس بارے  میں حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔“

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن) 

خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو دین سکھانا اور ان کی دینی تربیت کرنا ضروری ہے، لیکن دین سیکھنے اور سکھانے  کے لیے جائز طریقہ کا انتخاب اس سے بھی زیادہ ضروری ہے،رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کا امکان تھا کہ اسلام کے بعض اعمال جیسے ’’نماز‘‘ کی کیفیات انسانی ڈھانچے بناکر، رکوع و سجود اور قیام و قعود کی ہیئات لوگوں کو سکھائی جاتیں، کیوں کہ ہاتھ سے کاغذ وغیرہ پر تصویر بنانے کا فن ہزاروں سال پہلے سے چلا آرہا ہے، اور اس دور میں بھی مصورین موجود تھے، اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں میں نو مسلموں  کو تصاویر بناکر تعلیم دی ہو، بلکہ وہ تو جان دار کی تصویر بنانے والوں کو وعیدیں سناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہاں تو رسول اللہ ﷺ کا سکھایا ہوا اسلوبِ تعلیم و تربیت یہ تھا: 

’’صلّوا کما رأیتموني أصلي‘‘  ترجمہ:اس طرح نماز پڑھو جیساکہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔

 چنانچہ لوگوں کی اصلاح و تربیت ایسے طریقہ سے کرناکہ وہ طریقہ خود ہی ناجائز ہو   شرعًا درست نہیں ہے، لوگوں کی اصلاح و تربیت کے لیے جائز طریقے ( مثلاًانبیاء علیہم السلام کے قصے، تذکرے اور واقعات کی زبانی و تحریری تشہیر کرنا) ہی اختیار کرنے چاہیے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن نافع: أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم."

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة، رقم:5607 ،ج:5،ص:2220، ط: دار ابن كثير)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذابا عند الله المصورون»."

(مشکاۃ المصابیح: کتاب اللباس، باب التصاویر،رقم:4497, ج:2،ص:1247،ط:المکتب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر ‌كلام ‌النووي ‌في ‌شرح ‌مسلم ‌الإجماع ‌على ‌تحريم ‌تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:2،ص:2،ط:دار الکتب الاسلامی)

بلوغ القصدوالمرام میں ہے:

"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام".

 (جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام: ۷/264-265، از: بلوغ  القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فجعل ‌تعالى ‌الأمر ‌بالمعروف والنهي عن المنكر فرقا بين المؤمنين والمنافقين، فدل على أن أخص أوصاف المؤمن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ورأسها الدعاء إلى الإسلام والقتال عليه. ثم إن الأمر بالمعروف لا يليق بكل أحد، وإنما يقوم به السلطان إذ كانت إقامة الحدود إليه، والتعزيز إلى رأيه، والحبس والإطلاق له، والنفي والتغريب، فينصب في كل بلدة رجلا صالحا قويا عالما أمينا ويأمره بذلك، ويمضي الحدود على وجهها من غير زيادة... قال: ‌والأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في تأكيد الأمر بالمعروف ‌والنهي عن المنكر كثيرة جدا ولكنها مقيدة بالاستطاعة ۔۔۔قلت: ‌القول ‌الأول ‌أصح، فإنه يدل على أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض على الكفاية."

(سورہ آل عمران، ج:4، ص:48۔165، ط: دار الکتب المصری)

احسن الفتاوی میں ہے:

"اصلاح وتبلیغ کی نیت سے معصیت کاارتکاب ہر کز جائز نہیں، جب ارشاد وتبلیغ سے مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے تو اس مقصد کی تحصیل کے لیے اس کی معصیت کا کیا مطلب؟۔"

(متفرقات الحظر والاباحہ، ج8190/8،سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں