بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انعامی اسکیم


سوال

  شریعت مطہرہ اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتی ہے،کہ ایک شخص انعامی اسکیم اس انداز سے چلاتا ہے ،مثلا 100 لوگ اس میں شرکت کے لیے ایک ایک روپیہ جمع کرواتے ہیں، پھر ان 100 لوگوں میں سے 10 پرچیاں چنی جاتی ہیں، جن کے نام نکلتے ہیں، ان 10 لوگوں کو 5،5 روپے انعام میں دیئے جاتے ہیں، باقی جن لوگوں کا انعام نہیں نکلتا ان کو ان کا ایک ایک روپیہ واپس کر دیا جاتا ہے،مثلا100 لوگوں کے ایک ایک روپے جمع کرنے سے 100 روپے جمع ہوگئے،10 لوگوں کو بطور انعام 5، 5 روپے دیے گئے، یہ کل 50 روپےہوئے، باقی جن کا انعام نہیں نکلا تھا، وہ 90 لوگ ہیں، ان کو  ان کا ایک ایک روپیہ واپس کر دیا گیا، تو یہ 50 اور 90 ملا کر 140 روپے لوگوں کو دیے گئے، مطلب اسکیم والے نے اپنی جیب سے 40 روپے بھرے اور وہ یہ پیسے اپنی رضا و خوشی سے بھرتا ہے، اس نیت کے ساتھ کہ شاید کسی حاجت مند کا بھلا ہو، اور اسکیم چلانے والا اس کے جواز کے لیے کہتا ہے کہ جس طرح پرائز بانڈز جائز ہے،اسی طرح یہ اسکیم بھی جائز ہے،کیا یہ طریقہ جائز ہے؟

جواب

مذکورہ      انعامی  اسکیم میں   نفع اور نقصان  دونوں  کا امکان ہے  ،اس طرح   کہ  جس کی پرچی نکل آتی ہے   اس کا  نفع  ہے  ،مثلا ایک روپیہ جمع کرا کر چار روپے اضافی مل جاتے ہیں  جو کہ سراسر سود ہےاور باقی لوگوں کو ان کی اصل رقم واپس مل جاتی ہے لیکن جس  نفع کی طمع میں وہ اسی قرعہ اندازی میں شامل ہوئے تھے  وہ نہیں ملتی جس کی وجہ سےیہ معاملہ جوئے کے ساتھ مشابہ ہے،نیز  پرائز  بانڈ میں  بھی مذکورہ  خرابی  کی  وجہ   سے  ناجائز  ہے  ۔

محیط  برھانی  میں ہے:

لا بأس بالمسابقة بالإبل والرمي لحديث أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي عليه السلام أنه قال: «لا سبق إلا في خف أو نصل أو حافر»  

فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز 

(کتاب الاستحسان والکراھیۃ،الفصل السابع  فی  المسابقۃ   جلد6 /54ط مکتہ عفاریہ کاسی  روڈ کوئٹہ )

فتاویٰ شامی میں ہے:

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي

(کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی البیع ،6/403 ط سعید)

تفسیر  الماتریدی  میں  ہے:

وأجمع أهل العلم على أن القمار حرام، وأن الرهان على المخاطرة مثل القمار، وما روي عن أبي بكر رضي الله عنه أنه خاطر أهل مكة في غلبة الروم فارس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " زِدْهُم فِي الخَطَرِ وَأبْعِدْهُم فِي الأَجَلِ " - فكان ذلك والنبي صلى الله عليه وسلم بمكة في الوقت الذي لم ينفذ حكمه، فأما في دار الإسلام: فلا خلاف في أن ذلك لا يجوز

(سورۃ المائدۃ الآیۃ  90 ،2/73 المکتبۃ  المعروفیۃ کاسی روڈ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں