بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ضروت کے وقت کسی معاملہ میں قسم کھانے پر گناه نہیں ہے


سوال

گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے خاندان پر آسیب و جنات کے اثرات ظاہر ہو رہے تھے ، کبھی ایک بھائی پر جناتی اثرات ظاہر ہو تے تو کبھی بہن پر، اس طرح پورے خاندان والے اس پر یشانی میں مبتلا تھے،  اور جب یہ اثرات ظاہر ہوتے تو وہ اپنے آپ کو تکلیف پہنچانے، یہاں تک کہ خودکشی پر تیار ہو جاتا۔

اس سلسلے میں جب ہم  نے عاملوں سے رجوع کیا تو انہوں  نے بتایا کہ تمہارے ایک عامل رشتہ دار جو تمہارا چچازاد لگتا ہے اس نے تم سب پر جادو کیا ہے۔

انہی ایام میں ایک بھائی پر جب جن ظاہر ہوا تو اس نے بھی اس رشتہ دار کی نشاندہی کی،  اور بتایا کہ مجھے فلاں ( جس نے جادو کیا تھا ) نے بھیجا ہے، پھر آسیب زدہ بھائی نے کہا کہ فلاں ( جس نے جادو کیا تھا ) کو ہمارے سامنے حاضر کرو، جب وہ آیا تو پہلے اس سے کہاکہ: آپ ہم سے معافی مانگو، یہ سب آپ نے کیا ہے، اس نے معافی مانگنے سے انکار کیا تو آسیب زدہ بھائی نے ( اسی اثرات کی حالت میں ) اس سےکہا کہ: اگر آپ معافی نہیں مانگتے تو پھر ہم سب مل کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائیں گے، واضح رہے کہ آسیب زدہ بھائی نے جنات کی زبان میں حلف اٹھانے کا اس لیے کہا تھا کہ اگر اس عامل رشتہ دارسے حلف نہ لیاجائے  تو سب بھائیوں پر یہ اثرات ظاہر ہوں گے، چناں چہ ہم نے اس طرح قسم اٹھائی کہ" قرآن کی قسم نہ ماضی میں ہم نے اس خاندان پر جادو کیا،  اور نہ آئندہ جادو کریں گے "سب نے انہیں الفاظ کے ساتھ حلف اٹھا یا، لیکن عامل رشتہ دار جس پر جادو کرنے کی نشاندہی کی گئی تھی،  اس نے ان الفاظ سے حلف اٹھایا کہ "قرآن کی قسم اس خاندان پر آئندہ جادونہیں کروں گا"، اس نے اپنے حلف میں ماضی کا ذکر نہیں کیا، حلف کے واقعے کے بعد الحمد للہ سب کچھ عرصہ کے لئے ٹھیک ہو گئے۔

1. اب مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ہم سب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جو حلف اٹھایا، وہ ٹھیک اور درست تھا کہ نہیں ، اس لیے کہ ہمارے لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ قرآن پر حلف اٹھوانا خواہ حق پر ہو یا ناحق،کسی بھی صورت میں صحیح نہیں، اور سب ہمیں طعنہ دے رہے ہیں کہ علماء و تبلیغ سے جڑے ہو کر بھی اس طرح کام کرتے ہو، تو کیا ہمارا اس طرح حلف اٹھانا درست تھا یا نہیں؟

2. اس واقعہ کے بعد اس عامل رشتہ دار اور اس کے گھر والوں نے ہم سے قطع تعلقی کر لی ہے ، اگر ہم سلام کرتے ہیں تو جواب نہیں دیتے اور ہم سے میل ملاقات بھی نہیں رکھتے، ان کا کہنا ہے کہ خوشی  غمی میں آپ ہمارے ساتھ شریک نہ ہوں، شرعا اس قطع تعلقی کاکیاحکم ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

1.واضح رہےکہ شرعی شہادت کے بغیر محض کسی عامل سےغیب کےبارےمیں رجوع کرنااورعامل کایہ کہناکہ فلاں رشتہ دار نے جادو کیاہےشرعاًغلط ہے، اوراس کی بات پراعتماد کرکے آپس میں لڑناجھگڑنابھی شرعاًناجائز ہے، چناں چہ حضرت تھانوی ؒ عملیات وتعویذات نامی کتاب میں لکھتےہیں:

"اللہ تعالی کا فرمان ہے، {ولاتقف مالیس لك به علم}

(جس چیز کا تم کوصحیح علم نہ ہواس کے پیچھے مت پڑو)

اس آیت سےمعلوم ہوا کہ کسی صحیح دلیل کے بغیرجس کا صحیح ہونا قواعد شرعیہ سے ثابت ہوکسی امرکا خواہ وہ اخبارہویا انشاء(یعنی کسی بات کی خبرہویاکسی امرکا حکم ہواس کا) اعتقاد درست نہیں۔

اب عاملوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ خاص طریقوں سے فال کھولتے ہیں۔ اورگذشتہ یا آئندہ کے متعلق خبردیتے ہیں، یاچور وغیرہ معلوم کرنے کے لیے لوٹا گھمانے کا عمل کرتے ہیں اورکسی کا نام بتلادیتے ہیں اوراس کے مطابق خود بھی یقین کرلیتے لیں۔ اوردوسروں کو بھی یقین دلاتے ہیں۔یا ایسا کوئی عمل جس سے کوئی خواب نظرآئے بتلاکرجوکچھ خواب میں نظرآئے اس پرپورا اعتماد کرلیتے ہیں اوراس کا نام استخارہ رکھتے ہیں، یہ سب غیب کی خبروں کا دعوی ہے کیوں کہ شریعت نے ان واسطوں کے ذریعہ کسی خبر کے علم کومفید اورمعتبرنہیں قراردیا، بخلاف طب (علاج معالجہ) کے کہ خود سنت میں اس کا اعتبار وارد ہے۔ گودرجہ (اگر وصول کرلیا ہے)ظن ہی میں سہی، مذکوہ آیت ایسے امور کو باطل کرتی ہے، اسی طرح حدیث بھی ان سب کو باطل کرتی ہے، چناں چہ ارشاد ہے۔

"قال رسول اللہ ﷺ:من أتی عرافا فسئله عن شیئ لم تقبل له صلوة أربعین لیلة"

حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص عراف (یعنی غیب کی خفیہ باتیں بتانے والے )کے پاس آیا اوراس سے کچھ پوچھا ایسے شخص کی چالیس روزتک نماز قبول نہ کی جائے گی۔"(ص:112، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

نیزیہ بھی واضح رہےکہ کسی بھی معاملےمیں قسم کھانےاورکھلانےسےاجتناب ہی بہترہے، اگرچہ یہ قسم کھانایاکھلاناحق پرہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس میں اللہ کےنام کی بےحرمتی کااندیشہ ہوتاہے، اورجھوٹی قسم کااحتمال رہتاہے، خصوصاًجب یہ قسم کھانااورکھلانااجتماعی صورت میں ہو، تاہم حق پرقسم کھانےیامدعیٰ علیہ سےقسم کھلانےپرکوئی وعیدبھی نہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں سحرزدہ شخص کےبھائیوں نےجوقسم کھائی ہےکہ ’’قرآن کی قسم نہ ماضی میں ہم نے اس خاندان پر جادو کیا اور نہ آئندہ جادو کریں گے‘‘ اس میں شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے، اسی طرح مدعیٰ علیہ  سےانہوں نےجوقسم کھلوائی ہے اس میں بھی ان پرشرعاًکوئی ملامت کی بات نہیں ہے، لہذالوگوں کا اس بات پر طعنےدینابےجاہے۔

2. رشتہ داروں کاآپس میں قطع تعلقی کرناسخت گناہ کی بات ہے، احادیث میں قطع تعلقی پربڑی وعیدیں آئی ہیں، اس لیےآپ حضرات ہرممکن طریقےسےانہیں راضی کرنےکی کوشش کریں، کیوں کہ صلہ رحمی بھی یہی ہےکہ جورشتہ دارتعلقات ختم کرچکےہوں ان سےبھی میل ملاپ جاری رکھا جائے، اگرآپ لوگ یہی کوشش جاری رکھیں، توایک دن وہ بھی مجبورہوکر اپنےعمل سےبازآجائیں گے، ورنہ آپ لوگوں کو گناہ نہیں ہوگا۔

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياكم وكثرة الحلف في البيع فإنه ينفق ثم يمحق. رواه مسلم."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المساهلة في المعاملات، الفصل الأول، 850/2، المكتب الإسلامي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وإياكم وكثرة الحلف في البيع ") أي: اتقوا كثرتها ولو كنتم صادقين، لأنه ربما يقع كذبا...وفيه أن جواز قلتها مع صدقها مجمع عليها."

(كتاب البيوع، ‌‌باب المساهلة في المعاملات، الفصل الأول، 1908/5، ط:دار الفکر)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: البينة ‌على ‌المدعي، واليمين على المدعى عليه."

(‌‌أبواب الأحكام، باب ما جاء في أن البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه، 18/3، ط:دار الغرب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصلة الرحم واجبة ولو) كانت (بسلام وتحية وهدية) ومعاونة ومجالسة ومكالمة وتلطف وإحسان ويزورهم غبا ليزيد حبا بل يزور أقرباءه كل جمعة أو شهر ولا يرد حاجتهم لأنه من القطيعة في الحديث إن الله يصل من وصل رحمه ويقطع من قطعها.

(قوله: وصلة الرحم واجبة) نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون. كل قريب محرما كان أو غيره اهـ والثاني ظاهر إطلاق المتن قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم، وفيهم أشد من بقية الأرحام وفي الأحاديث إشارة إلى ذلك كما بينه في تبيين المحارم (قوله: ولو كانت بسلام إلخ) قال في تبيين المحارم: وإن كان غائبا يصلهم بالمكتوب إليهم، فإن قدر على المسير إليهم كان أفضل وإن كان له والدان لا يكفي المكتوب إن أرادا مجيئه وكذا إن احتاجا إلى خدمته، والأخ الكبير كالأب بعده وكذا الجد وإن علا والأخت الكبيرة والخالة كالأم في الصلة، وقيل العم مثل الأب وما عدل هؤلاء تكفي صلتهم بالمكتوب أو الهدية اهـ. وتمامه فيه.

ثم اعلم أنه ليس المراد بصلة الرحم أن تصلهم إذا وصلوك لأن هذا مكافأة بل أن تصلهم وإن قطعوك فقد روى البخاري وغيره ليس الواصل بالمكافئ ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها."

(کتاب الحظر و الإباحة، 411/6، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں