بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آمنہ امامہ سعیدہ، جویریہ نام رکھنا


سوال

"آمنہ" و، " امامہ" ، " سعیدہ"  ، "جویریہ"  ان ناموں میں کون سا معنی کے اعتبار سے اچھا ہے؟

جواب

۱۔ آمنہ کا  تلفظ " آمِنَه" یعنی آخر میں ہاء کے ساتھ ہے، جس کا معنی ہے: ایمان لانے  والی۔

مذکورہ نام  آپ ﷺ  کی  والدہ کا نام ہونے کے ساتھ ساتھ کئی صحابیات کا نام بھی ہے،  لہذا بچی کا نام  "آمنہ"  رکھنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ  افضل اور باعثِ برکت  بھی ہے۔

۲۔ امامہ کے معانی سیادت، قیادت، آگے بڑھنے کے ہیں۔ (المنجد، ص: ۱۷)

" امامہ " حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کا نام ہے، جو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں ،" اُمامہ بنت أبی العاص" ۔(اسد الغابۃ ۳: ۳۵۹)

 آپ اپنی بیٹی کا نام  "اُمَامَہ" رکھ سکتے ہیں۔ یہ نام نسبت اور معنی دونوں اعتبار سے بہتر ہے۔

۳۔’’سعید‘‘  کے معنی سعادت مندی کے آتے ہیں۔  اور سعیدہ اسی کا مونث ہے، اچھا اور بابرکت نام ہے۔

سعيد : (معجم الرائد):

"(اسم) 1-الذي يشعر بالبهجة والارتياح النفسي، جمع : سعداء".

۴۔ ’’جُوَیریہ‘‘ (جیم کے ضمہ (پیش) کے ساتھ ) رسول اللہ ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کا نام تھا، ان کا اصل نام ’’برۃ‘‘ تھا، لیکن حضور ﷺ نے ان کا نام بدل کر خود ’’جویریہ‘‘ رکھ دیا تھا، اس نسبت سے یہ نام رکھنا درست، بلکہ باعثِ برکت ہے۔

ان چاروں میں سے کوئی بھی نام رکھ سکتے  ہیں۔

قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی نام کسی صحابیؓ یا صحابیہ  سے منسوب ہو تو اس کے معنیٰ کی طرف توجّہ دینے کی ضرورت نہیں؛ اس لیے  کہ  انبیاءِ کرام علیہم السلام اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں ناموں کے معانی نہیں دیکھے جاتے ، بلکہ ان کی شخصیت ونسبت  کی بنا پر ان ناموں کو رکھنے کی ترغیب ہے، کسی نام کے باسعادت اور بابرکت ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ کسی صحابی یا صحابیہ رضی اللہ عنہم کا نام ہے۔

الإصابة في معرفة الصحابۃ میں ہے:

"آمنة بنت عفان بن أبي العاص بن أمية بن عبد شمس الأموية أخت أمير المؤمنين عثمان.

قال أبو موسى: أسلمت يوم الفتح وكانت عند سعد حليف بني مخزوم وكانت من النسوة اللاتي بايعن رسول الله صلى الله عليه وسلم مع هند امرأة أبي سفيان على ألا يشركن بالله شيئاً و لايسرقن و لايزنين. ذكر ذلك بن إسحاق في المغازي.

وذكر بن الكلبي أنها كانت في الجاهلية ماشطة وأنها تزوجت الحكم بن كيسان مولى بني مخزوم." 

(باب الکنی، حرف الیاء آخر الحروف، ج:7، ص:445، ط:دارالجیل)

مسند أحمد   میں ہے:

"حدثنا أبو عبد الرحمن حدثنا المسعودي حدثنا محمد بن عبد الرحمن مولى آل طلحة عن كُريب عن ابن عباس: كان اسمُ جُوَيْريةَ بنت الحرث زوجِ النبي صلى الله عليه وسلم بَرَّةَ، فحوَّل رسول الله صلى الله عليه وسلم  اسمها، فسماها جويرية".

(ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۷۹)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں