بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کافر/ یا بغیر وضو کے نماز پڑھاتا رہا


سوال

 ایک شخص نے ایک بستی میں دس سال امامت کی،  پھر کہا کہ میں مسلمان نہیں تھا یا کہا کہ میں نے بے وضو نماز پڑھائی تھی تو مقتدی پر دس سال کی نماز کا اعادہ واجب ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر واقعتًا  کہیں  ایسا ہوا  ہے جس کا سوال  میں  ذکر  ہے  ( کہ امام مسلمان نہیں تھا، بغیر وضو کے نمازیں کے نماز پڑھاتا رہا) تو ایسی صورت میں چوں کہ امام  بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا رہا   یا باوضو ظاہر کرتا رہا اور  مقتدی  بھی امام کو مسلمان سمجھ کر   یا اسے باوضو سمجھ کر اس  کی دونوں  حالتوں  (یعنی  کفر اور حدث)کے علم کے بغیر اس کی اقتدا  میں نماز  پڑھتے  رہے ،تو  مقتدیوں پر  اس عرصہ میں پڑھی  جانے والی نمازوں کا اعادہ نہیں ہے، اس کا وبال نماز پڑھانے والے  (امام)  پر  ہو گا ۔

 البتہ اگر علم  ہونے  کے بعد بھی کوئی نماز  اس کی اقتدا  میں پڑھی ہے تو اس کا اعادہ لازم ہو گا۔

الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(ويكره) تنزيهًا (إمامة عبد) ولو معتقًا، قهستاني. عن الخلاصة، ولعله لما قدمناه من تقدم الحر الأصلي، إذ الكراهة تنزيهية فتنبه (وأعرابي)  ومثله تركمان وأكراد وعامي (وفاسق وأعمى) ونحوه الأعشى نهر (إلا أن يكون) أي غير الفاسق (أعلم القوم) فهو أولى (ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ... (وإن) أنكر بعض ما علم من الدين ضرورة (كفر بها) كقوله: إن الله تعالى جسم كالأجسام وإنكاره صحبة الصديق (فلايصح الاقتداء به أصلًا) فليحفظ."

(کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ،ج: 1، صفحہ: 559 تا 562، ط: ایچ، ایم، سعید) 

وفیہ ایضاً:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحةً وفسادًا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط.

(قوله: وإذا ظهر حدث إمامه) أي بشهادة الشهود أنه أحدث وصلى قبل أن يتوضأ أو بإخباره عن نفسه وكان عدلًا وإلا ندب، كما في النهر عن السراج.

مطلب المواضع التي تفسد صلاة الإمام دون المؤتم

(قوله: وكذا كل مفسد في رأي مقتد) أشار إلى أن الحدث ليس بقيد؛ فلو قال المصنف كما في النهر: ولو ظهر أن بإمامه ما يمنع صحة الصلاة لكان أولى، ليشمل ما لو أخل بشرط أو ركن، وإلى أن العبرة برأي المقتدي حتى لو علم من إمامه ما يعتقد أنه مانع والإمام خلافه أعاد، وفي عكسه لا إذا كان الإمام لايعلم ذلك؛ ولو اقتدى بآخر فإذا قطرة دم وكل منهما يزعم أنها من صاحبه أعاد المقتدي لفساد صلاته على كل حال كما في النهر عن البزازية."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج: 1/ صفحہ: 591 و592/ ط: ایچ، ایم، سعید)

الکفایۃ بشرح الھدایۃ میں ہے:

"ويكره الاقتداء بصاحب  الهوى البدعة والحاصل: أن من كان من أهل قبلتنا ولم يفعل في هواه حتى يحكم بكفره (مع الكراهية التحريمة) خلفه، وإن كان هوى يكفر أهلها كالجهمي والقدري الذي قال بخلق القرآن والرافضي الغالي الذي ينكر خلافة أبي بكر لاتجوز."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج: 1، صفحہ: 305، ط: رشیدیہ)

حلبی کبیر میں ہے:

"والمراد بالمبتدع من يعتقد شيئًا على خلاف ما يعتقده أهل السنة والجماعة ... أما لو كان مؤياً إلى الكفر فلاتجوز أصلاً."

(حلبی کبیر ص: 514، اولی باالامامۃ، ط: سہیل اکیڈمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں