بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

American Red Cross کی امداد کا حکم


سوال

جن چیزوں پر American red cross لکھی ہوئی ہو، ان کا استعمال کیساہے؟

جواب

غیر مسلموں کی طرف سے مسلمانوں کو امداد  ملے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر  امداد  دینے کے بعد اس امداد کی وجہ سے مسلمانوں کو دینی یا دنیوی نقصان کا اندیشہ ہو تو ایسی امداد قبول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ امداد در حقیقت رشوت ہے جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کی طرف سے پیش کیے گئے شاہی ہدایا دینی نقصان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رد کردیے تھے، اور اگر دینی یا دنیوی نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو ایسی امداد قبول کی جاسکتی ہے۔ اور قبول کرنے کی صورت میں اگر اس امداد میں خورد و نوش (کھانے پینے) کی اشیاء کے اجزاء میں سے کوئی چیز حرام نہ ہو، تو اسے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں American Red Cross یا دیگر غیر مسلم اداروں و تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی امداد کا حکم بھی درج بالا تفصیل کے مطابق ہوگا۔

معارف القرآن میں ہے:

’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کا ہدیہ قبول نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں یا بہتر نہیں۔ اور تحقیق اس مسئلے میں یہ ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنے میں اگر اپنی یا مسلمانوں کی کسی مصلحت میں خلل آتا ہو یا ان کے حق میں رائے کی کمزوری پیدا ہوتی ہو تو ان کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں۔ (روح املعانی) ہاں اگر کوئی دینی مصلحت اس ہدیہ کے قبول کرنے کی داعی ہو مثلاً اس کے ذریعہ کافر کے مانوس ہو کر اسلام سے قریب آنے پھر مسلمان ہونے کی امید ہو یا اس کے کسی شر و فساد کو اس کے ذریعہ دفع کیا جاسکتا ہو تو قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت اس معاملہ میں یہی رہی ہے کہ بعض کفار کا ہدیہ قبول فرمالیا، بعض کا رد کردیا ۔۔۔‘‘الخ (ج 6 / ص 581)

تفسير القرطبي (13 / 198):

"الثانية: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل الهدية ويثبت عليها ولايقبل الصدقة، وكذلك كان سليمان عليه السلام وسائر الأنبياء صلوات الله عليهم أجمعين. وإنما جعلت بلقيس قبول الهدية أو ردها علامة على ما في نفسها، على ما ذكرناه من كون سليمان ملكا أو نبيا، لأنه قال لها في كتابه:" ألا تعلوا علي وأتوني مسلمين" وهذا لا تقبل فيه فدية، ولايؤخذ عنه هدية، وليس هذا من الباب الذي تقرر في الشريعة عن قبول الهدية بسبيل، وإنما هي رشوة وبيع الحق بالباطل، وهي الرشوة التي لا تحل. وأما الهدية المطلقة للتحبب والتواصل فإنها جائزة من كل أحد وعلى كل حال، وهذا ما لم يكن من مشرك.

الثالثة- فإن كانت من مشرك ففي الحديث" نهيت عن زبد المشركين" يعني رفدهم وعطاياهم. وروي عنه عليه السلام أنه قبلها كما في حديث مالك عن ثور بن زيد الدبلي وغيره، فقال جماعة من العلماء بالنسخ فيهما، وقال آخرون: ليس فيها ناسخ ولا منسوخ، والمعنى فيها: أنه كان لا يقبل هدية من يطمع بالظهور عليه وأخذ بلده ودخوله في الإسلام، وبهذه الصفة كانت حالة سليمان عليه السلام، فعن مثل هذا نهى أن تقبل هديته حملا على الكف عنه، وهذا أحسن تأويل للعلماء في هذا، فإنه جمع بين الأحاديث. وقيل غير هذا".

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144202200427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں