میں نے اپنے شوہر کو ایک لاکھ درہم امانت کے طور پر رکھنے کے لیے دئیے تھے، اب ان کا انتقال ہوچکا ہے، کیا ان کے ترکہ میں سے پہلے میرے پیسے نکال کر باقی مال وراثت میں تقسیم ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائلہ نے اپنے شوہر کے پاس ایک لاکھ درہم امانت کے طور پر رکھوائے تھے مرحوم کے دیگر ورثاء بھی اس قرض کو تسلیم کرتے ہوں تو اب شوہر کے انتقال کے بعد، مرحوم کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کرنے سے پہلے کل ترکہ سے مرحوم کی بیوہ (سائلہ) کو ، اس کے امانت رکھے ہوئے ایک لاکھ درہم ملیں گے، اس کے بعد مرحوم کا ترکہ مرحوم کے تمام شرعی ورثاء (سائلہ سمیت)میں(شرعی حصوں کے تناسب سے) تقسیم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) ... (بتجهيزه)...(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ...ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)."
(6/ 761، كتاب الفرائض،ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101579
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن