ایک بندے نے میرے پاس کچھ رقم بطورِ امانت رکھی تھی جس کو میں نے اپنی ذاتی رقم کے ساتھ(اس طور پر ملایا تھا کہ میں پیسوں کی گڈیوں کو جانتا تھا کہ فلاں میری ہیں اور فلاں امانت کی ہیں) ایک محفوظ جگہ پر رکھ دیا تھا، لیکن بعد میں میرے ایک معتمد ڈرائیور نے کسی طریقے سے گھر کی چابی بنوائی تھی جو کہ میرے علم میں نہیں تھی، تو ڈرائیور نے موقع پاکر میرے ذاتی مال کے ساتھ وہ امانت شدہ رقم بھی چوری کر لی۔
اب پو چھنا یہ ہےکہ کیا میری جانب سے کوئی کوئی غفلت پائی گئی ہے جس کی بنیاد پر میں ضامن ٹھہروں ؟
جب کہ مودِع (امانت رکھنے والے )کا مؤقف یہ ہے کہ آپ کا گھر غیر محفوظ(کیوں کہ آپ کے پاس مہمان اور دیگر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے، اسی طرح ڈرائیور کا آنا جانا ہے) تھا آپ کی غفلت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
امانت امین کے پاس حفاظت میں کوتاہی اور تعدّی کے بغیر ہلاک ہوجائے تو امین پر اس کا ضمان نہیں آتا، نیز اگر امین امانت رکھی ہوئی چیز کو دوسری چیزوں کے ساتھ اس طور پر ملا لے کہ اس کی پہچان مشکل ہو جائے تو یہ بھی تعدّی شمار ہوتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاًآپ نے امانت کی رقم اپنی رقم کے ساتھ اس طور پر ملا کر رکھی تھی کہ آپ اس کی پہچان کر سکتے تھے، یعنی آپ کے علم میں تھا کہ پیسوں کی فلاں گڈی میری اپنی ذاتی ہے اور فلاں امانت کی ہے،اوررقم گھر میں محفوظ جگہ رکھی ہوئی تھی تو رقم چوری ہونے کی صورت میں تعدّی نہ پائے جانے کی وجہ سے آپ پر ضمان نہیں آئے گا، جب بھی رقم واپس مل جائے تو امانت کی رقم مودِع (جس نےامانت رکھوائی تھی )کو لوٹانا ضروری ہے، نیز مہمانوں اور ڈرائیور کے آنے کی وجہ سے آپ کا گھر غیر محفوظ نہیں کہلائے گا۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :
"(وكذا لو خلطها المودع) بجنسها أو بغيره (بماله) أو مال آخر ابن كمال (بغير إذن) المالك (بحيث لا تتميز) إلا بكلفة كحنطة بشعير ودراهم جياد بزيوف مجتبى (ضمنها) لاستهلاكه بالخلط."
ردالمحتار میں ہے :
"(قوله لا تتميز) فلو كان يمكن الوصول إليه على وجه التيسير كخلط الجوز باللوز والدراهم السود بالبيض فإنه لا ينقطع حق المالك إجماعا. واستفيد منه أن المراد بعدم التمييز عدمه على وجه التيسير لا عدم إمكانه مطلقا بحر."
(كتاب الإيداع، ج : 5، ص : 668/69، ط : سعید)
المحيط البرہانی میں ہے :
"إذا كانت الوديعة دراهم، فاختلط بدراهم المودع على وجه تيسر التمييز لا يصير المخلوط مشتركا بينهما، فإن اختلطت على وجه تعذر التمييز صار المخلوط مشتركا بينهما، وإن خلطهما بعض من في عيال المودع، وكان الخلط على وجه تعذر التمييز أو كان الخلط على وجه يتعسر التميز بأن خلط حنطة الوديعة بشعير المودع صار الخالط ضامنا."
(كتاب الوديعة، الفصل العاشر في المتفرقات، ج : 5، ص : 549، ط : دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومنها: أنه إذا ضاعت في يد المودع بغير صنعه، لا يضمن، لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "ليس على المستعير غير المغل الضمان ولا على المستودع غير المغل الضمان»'؛ ولأن يده يد المالك، فالهلاك في يده كالهلاك في يد المالك."
(كتاب الوديعة، فصل في بيان حال الوديعة، ج :8، ص : 363، ط : دار الکتب العلمیة)
شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے :
" الوديعة امانة في يد الوديع فإذا هلكت بلا تعد من المستودع وبدون صنعه وتقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان."
(الکتاب السادس في الامانات، الباب الثاني في الودیعة، الفصل الثاني في احكام الوديعة وضمانها،المادة :777، ج : 3، ص : 242، ط : رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100904
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن