میرے پاس ایک آدمی نے 1,53,000 روپے بطورِ امانت رکھے تھے، جس میں سے 1,30,000 روپے میں نے واپس کردیے تھے، اور باقی 23,000 روپے میرے ذمے باقی ہیں۔ لیکن وہ شخص اب دعویٰ کررہا ہے کہ آپ نے مجھے صرف 30,000 روپے دیے ہیں، 1,23,000 روپے آپ کے ذمے باقی ہیں، وہ ایک لاکھ روپے کی واپسی کا انکار کررہا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کیا کیا جائے اور اس کے حل کا کیا طریقہ کار ہے؟ اور مذکورہ معاملہ میں قسم کس پر آئے گی؟
کسی بھی قسم کے لین دین کا معاملہ کرنا ہو تو اس کو لکھنا مستحب ہے، اس لیے آپ کو چاہیے تھا کہ جب آپ نے مذکورہ آدمی کو امانت میں سے 1,30,000 روپے واپس کیے تھے تو اسے لکھ لیتے یا اس پر گواہ بنا لیتے، تحریر اور گواہ نہ ہونے کی صورت میں اولاً تو مل بیٹھ کر یاد دہانی اور افہام وتفہیم کے ذریعے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا کہ قسم اُٹھانے کی نوبت ہی نہ آئے، اگر افہام و تفہیم سے حل نہ ہوسکے اور واقعتاً آپ نے امانت میں سے 1,30,000 روپے واپس کردیے ہیں تو قسم آپ پر آئے گی، آپ قسم اُٹھا کر ضمان سے بری ہو جائیں گے، تاہم یاد رہے کہ اگر جھوٹی قسم اُٹھائی تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے، دنیا وآخرت میں اس کے خطرناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔
المحیط البرہانی میں ہے :
"إذا قال المستودع لصاحب الوديعة: بعثت بها إليك مع رسولي، وسمى بعض من في عياله؛ بأن قال: مع ابني، أو قال: مع عبدي وما أشبهه؛ كان القول قوله؛ لأن له أن يرد بيد هؤلاء، كما له الرد بنفسه، ولو ادعى الرد بنفسه كان القول قوله، فكذا إذا ادعى الرد بيد هؤلاء."
(كتاب الوديعة، الفصل السابع في رد الوديعة، ج : 5، ص : 544، ط : دار الكتب العلمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"(وأما معرفة المدعي من المدعى عليه) فهي أن المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة وهذا حد عام صحيح وقال محمد رحمه الله في الأصل المدعى عليه هو المنكر وهذا صحيح لكن الشأن في معرفته والترجيح بالفقه عند الحذاق من أصحابنا - رحمهم الله تعالى - لأن الاعتبار للمعاني دون الصور والمباني فإن المودع إذا قال: رددت الوديعة فالقول له مع اليمين وإن كان مدعيا للرد صورة لأنه ينكر الضمان هكذا في الهداية."
(کتاب الدعویٰ، الباب الأول، ج : 4، ص : 3، ط : دار لكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101745
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن