بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمبولینس چلانے والے کا نماز مؤخر کرنا


سوال

میں پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو1122 میں ملازمت کرتا ہوں۔بعض دفعہ ایمبولینس میں مریض ہونے کی وجہ سےنماز رہ جاتی ہے اور نماز کا وقت ختم ہوجاتا ہے بالفرض میں ظہر کے وقت ایمبولینس میں سوار ہوا اور عشاء کے بعد واپس آیا ۔تو ظہر عصر مغرب کی نماز کیسے ادا کیا کروں ؟بعض دفعہ دو نمازیں رہ جاتی  ہیں،بعض دفعہ تین رہ جاتی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا فرض ہے، اور بلا عذر شدید وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا سخت گناہ ہے، ڈیوٹی کی وجہ سے بھی نمازوں کو ان کے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا جائز نہیں۔ لہٰذاصورت مسئولہ میں سائل پر لازم ہے کہ  ڈیوٹی کے دوران نمازوں کو ان کے وقت میں ادا کرنے کا اہتمام کرے، اور وقت داخل ہوتے ہی کوشش کرے کہ جیسے ہی جہاں بھی موقع ملے فوراًنماز ادا کرلے، اور باجماعت نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرے، اگر کبھی مریض کو اسپتال لے جانے کی وجہ سے جماعت نہ مل سکے تووقت کے اندر اندراکیلے ہی پڑھ لے۔اور اگر  کبھی مریض کو لے جانے کی وجہ سے وقت بہت کم بچے اور سنتوں کی ادائیگی کا وقت میسر نہ ہو تو کم از کم فرائض ہی ادا  کرلے، تاکہ نماز قضا کرنے کا گناہ تونہ ملے۔

اور اگر ایسی صورت ہوکہ (مریض کو اتنی دور لے کر جانا ہو کہ)نماز کا مکمل وقت ہی مریض کو پہنچانے میں نکل رہا ہو ، تو اگر مریض کی حالت ایسی ہو  کہ راستےمیں کچھ دیر رک کر نماز ادا کرنا ممکن ہو تو راستے میں ہی کہیں نماز ادا کرلے (زیادہ دیر نہ رک سکتا ہو تو کم از کم فرائض ہی پڑھ لے) ، اگر اتنا لمبا سفر ہو کہ کئی نمازوں کا وقت درمیان میں آرہا ہو تو  یہ بھی کرسکتا ہے کہ ایک ہی دفعہ گاڑی روک کر دو نمازیں ایک  ساتھ اس طرح پڑھے کہ پہلی نماز(مثلاً ظہر) کو اس کے آخر وقت میں  اور اگلی نماز(مثلاً عصر) کو  اس کےوقت کے بالکل شروع میں پڑھ لے، تاکہ بار بار رکنے  اور زیادہ دیر رکنے سے مریض کو تکلیف نہ ہو۔

اور  اگرمریض کی حالت  اتنی زیادہ تشویش ناک ہو کہ ذرابھی تاخیر سے اس کی جان جانے کا یا حالت بگڑنے کا خطرہ ہو، اور باوجود کوشش کے بھی نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے کسی جگہ رک کر (کم از کم فرض نماز بھی ) اداکرنے کا  موقع نہ ملے تو ایسی صورت میں وقت گزرنے کے بعد جیسے ہی موقع ملے نماز قضا کرلے، اور استغفار بھی کرلے، امید ہے کہ ایسی صورت میں سائل نماز کے فوت ہونے پر عند اللہ ماخوذنہیں ہوگا ان شاء اللہ۔

قرآن کریم میں ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238)(البقرۃ، الایة: 238)

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:

’’دو نمازوں کا بیک وقت ادا کرنا اگر صوری ہو (یعنی ایک کو مؤخر کر کےآخری وقت میں اور دوسری کو پہلے وقت میں ادا کرنا) تو ضرورت کے وقت جائز ہے۔۔الخ‘‘

جامع الفتاویٰ میں ہے:

’’ اگر مریض کی حالت خراب ہو  اور مریض کی جان کو خطرہ ہو تو اس صورت میں ڈاکٹر مریض کی جان بچانے کی خاطر نماز قضاء کر سکتا ہے۔‘‘

(جامع الفتاویٰ، مؤلف: حضرت مفتی مہربان علی صاحبؒ، کتاب الحظر و الاباحۃ،جدید میڈیکل مسائل اور ان کا حل،ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ)

النہر الفائق میں ہے:

"ثم لا يخفى أن تأخير العبادة عن وقتها لا يجوز إلا لعذر كخوف عدو ومنه ‌خوف ‌القابلة موت الولد لو اشتغلت بالصلاة."

(النهر الفائق شرح كنز الدقائق،‌‌كتاب الصلاة،  ‌‌باب قضاء الفوائت، 1/ 316، الناشر: دار الكتب العلمية)

در مختار میں ہے:

"إذ التأخير بلا عذر كبيرة لا تزول بالقضاء بل بالتوبة أو الحج، ومن العذر العدو، ‌وخوف ‌القابلة موت الولد لأنه - عليه الصلاة والسلام - أخرها يوم الخندق."

(حاشية رد المحتار، على الدر المختار،‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، 2/ 62، ط: سعيد)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"(قوله و خوف القابلة موت الولد)أما اذا ظنت ذلك يجب عليها التاخير. أبو السعود في الشرح المذكور"

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، 303/1، ط: مصر(سنۃ: 1282))

موسوعہ فقہیۃ میں ہے:

"لا يعلم خلاف بين الفقهاء في أن تأخير الصلاة عن وقتها بدون عذر ذنب عظيم، لا يرفع إلا بالتوبة والندم على ما فرط من العبد، وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم من فعل ذلك بأنه مفرط أي مقصر، حيث قال: ليس التفريط في النوم، إنما التفريط في اليقظة".

(الموسوعة الفقھیة الکویتیة،‌‌‌‌‌‌أوقات الصلوات، أوقات الكراهة، حكم الصلاة في غير وقتها،  ‌‌تأخير الصلاة بلا عذر، 186/7، ط: دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں