بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمازون (Amazone) پر تجارت کرنے کا حکم


سوال

Amazon پر تجارت کرنا کیسا عمل ہے؟آیا حلال ہے یا حرام؟اس پر تجارت کرنے کے لئے اپنے پیسے لگا کر مختلف اشیاء خریدی جاتی ہیں پھر ان اشیاء کو اسی پلیٹ فارم پر بیچا جاتا ہے۔

جواب

ایمازون (Amazone) پر تجارت کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، آپ کو جس خاص صورت کا حکم معلوم کرنا ہو اس کا تفصیلی طریقہ کار اور شرائط تحریر کر کے سوال بھیج دیں تو شرعی حکم بتادیا جائے گا، البتہ اجمالی طور پر ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ  ایمازون (Amazone) پر آن لائن کاروبار کرتے وقت اکثر و بیشتر ’’بیع قبل القبض‘‘(مال خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے آگے دوسرے کو فروخت کرنا)  کی صورت پیش آتی ہے جو کہ احادیث کی رو سے ناجائز ہے، اس لیے ’’ایمازون (Amazone)‘‘ پر کاروبار کی جن صورتوں میں ’’بیع قبل القبض‘‘ پائی جاتی ہے، وہ تمام صورتیں تو واضح طور پر ناجائز ہیں، لیکن اگر ایمازون سے مال خریدنے کے بعد خود یا وکیل کے ذریعے قبضہ کرنے کے بعد آگے فروخت کرے تو یہ جائز ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض،3/ 1159،ط:دار إحیاءالتراث العربي)

وفیه أیضاً :

"عن ابن عمر، قال: «كنا في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم نبتاع الطعام، فيبعث علينا من يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه، إلى مكان سواه، قبل أن نبيعه»."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض،3/ 1160،ط:دار إحیاءالتراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ،5/ 147۔148،ط:سعید)

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے:

"من حكم المبيع إذا كان منقولاً أن لايجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني، الفصل الثالث،3/ 13،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں