بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمازون پر آن لائن خریدوفروخت کا حکم


سوال

کیا یہ طریقہ کاروبار مناسب ہے یا کوئی متبادل صورت اپنانی چاہیے، میں چمڑےکے  جیکٹ ایمازون پہ بیچتا ہوں جب آرڈر آتا ہے تو وہ جیکٹ بازار سے بنواکر آگے بھیج دیتا ہوں اس میں ایک بات یہ ہوتی ہے کہ اگر آڈر کینسل ہوگیا یا جیکٹ راستے میں پھٹ گئی یا گاہک کے مقام پہ پہنچی تو گاہک نے کسی بھی وجہ سے لینے سے انکار کردیا ان تمام مالی طور پر نقصان میرا ہے اور ایک چیز اور ہے کہ ایمازون کو مجھے یہ بتانا ہوتا ہے کہ میرے پاس پانچ سے دس پیس تیار رکھے ہوئے ہیں جب کہ حقیقت میں ایک بھی نہ میری ملکیت میں ہوتا ہے نہ یہ بات یقینی ہوتی ہے  کہ یہ ڈیزائن ڈیلر کے پاس تیار رکھا ہوگا ان معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے بتائیے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں اور گزشتہ جو منافع ہوا وہ حلال ہوا یا حرام؟

جواب

آن لائن کاروبار میں اگر "مبیع"(جو چیز فروخت کی جارہی ہو) بائع (بیچنے والے) کی ملکیت یا قبضہ میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی، لیکن اگر مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار، تصویر دکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ: "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت یا قبضہ میں"مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت یا وکیل کے قبضے میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کا ایمازون پر چمڑے کے جیکٹ فروخت کرنا  جب کہ جیکٹ سائل کی ملکیت یا قبضہ میں نہیں  تو یہ شرعا جائز نہیں ۔
اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

  1. آپ   جیکٹ   ملنے  سے پہلے بیع نہ کریں، بلکہ وعدۂ بیع کریں،بیع جیکٹ  پہنچنے کے بعد کریں اور آپ مشتری (خریدار)سے یہ کہہ دیں  کہ یہ چیز اگر آپ مجھ سے خریدیں گے تو میں آپ کو اتنے کی دوں گا۔
  2. آپ ایک فرد (مشتری) سے آرڈر  لیں اورمطلوبہ چیزجیکٹ وغیرہ  کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائیں اور اس عمل کی اُجرت مقرر کرکے لیں  تو یہ بھی جائز ہے، یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اُجرت مقرر کرکے یہ معاملہ  کریں۔
  3.  جہاں سےآپ  جیکٹ  خریدرہے ہیں ، وہاں کسی کو یا مال بردار کمپنی کو مال پر قبضہ کا وکیل بنادیں، اس کے قبضے کے بعد بیع جائز ہے۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:۵،ص:۳۶۲،دارالرسالۃ العالمیۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(باب المنہی عنہا من البیوع،ج:۵،ص:۱۹۳۷،دارالفکر)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:۱،ص:۲۰۳،المطبعۃ الخیریۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح ‌بيعه ‌قبل ‌القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع،باب فی شرائط الصحۃ فی البیوع،ج:۵،ص:۱۸۰،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں